رسائی کے لنکس

امریکی سپریم کورٹ کے لیے نامزد کونی بیرٹ کا کئی اہم سوالات کا جواب دینے سے انکار


سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ارکان نے مسلسل دوسرے روز ایمی کونی بیرٹ سے سوالات کیے۔
سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ارکان نے مسلسل دوسرے روز ایمی کونی بیرٹ سے سوالات کیے۔

امریکہ کی سپریم کورٹ میں جج کی خالی نشست کے لیے نامزد امیدوار ایمی کونی بیرٹ نے منگل کو سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ارکان کی جانب سے پوچھے جانے والے کئی سوالات کے جواب دینے سے معذرت کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اپنے کام پر ذاتی اور مذہبی خیالات کو حاوی نہیں ہونے دیں گی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کونی بیرٹ کو سپریم کورٹ کے جج کی خالی نشست کے لیے نامزد کیا تھا۔ اگر وہ اس نشست پر نامزدگی حاصل کر لیتی ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے 9 ججز کے ارکان کے لیے تاحیات رکن رہیں گی۔

منگل کو سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ارکان نے مسلسل دوسرے روز اُن سے سوالات کیے۔ اس موقع پر پینل نے سوال کیا کہ اگر آپ کو سپریم کورٹ کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے تو قانونی تنازعات کا کس طرح سامنا کریں گی؟ جس پر کونی بیرٹ نے کہا کہ وہ کیسز کے انتخاب کے لیے اپنے ذاتی خیالات کو حاوی نہیں ہونے دیں گی۔

بیرٹ نے کہا کہ اُن کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ قانون کی پاسداری کریں گی۔

بیرٹ نے امریکہ میں اسقاطِ حمل کو قانونی قرار دینے، ہتھیاروں کے مالکانہ حقوق اور آئندہ ماہ عدالت میں ممکنہ طور پر زیرِ سماعت آنے والے ہیلتھ کیئر قانون سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا۔

سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بیرٹ نے کہا کہ اُن کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ قانون کی پاسداری کریں گی۔
سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بیرٹ نے کہا کہ اُن کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ قانون کی پاسداری کریں گی۔

بیرٹ نے اس سوال کا بھی جواب دینے سے گریز کیا کہ اگر سینیٹ کی جانب سے ان کی سپریم کورٹ کی جج کی حیثیت سے تقرری کر دی جاتی ہے تو وہ تین نومبر کو صدارتی انتخابات میں کسی قانونی تنازع کی صورت میں خود کو اس سے الگ رکھیں گی یا نہیں۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ انتخابات میں ڈاک کے ذریعے ووٹ کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ عدالت انتخابات کے فیصلے میں مدد کرے۔

صدر ٹرمپ کی نامزد کردہ کونی بیرٹ کو قدامت پسند خیالات کی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے جب کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بیرٹ سپریم کورٹ میں الیکشن کے تنازع کو چار چار کے تناسب کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔

واضح رہے کہ امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کی کل تعداد 9 ہے۔ اگر ایمی کونی بیرٹ کی نامزدگی کی تصدیق ہو جاتی ہے تو پھر صدارتی انتخابات سے قبل سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہو جائے گی اور یہ تعداد تین کے مقابلے میں چھ ہو جائے گی۔

بیرٹ نے کہا کہ ان کی صدر ٹرمپ یا ان کے کسی عہدیدار سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی کہ اُنہیں الیکشن کے تنازع کی صورت میں کیا فیصلہ سنانا ہو گا۔

اُن کے بقول وہ انتخابات کے کسی بھی تنازع کی صورت میں ایسی گفتگو کا خود کو حصہ بنانے کو غیر اخلاقی سمجھتی ہیں۔

منگل کو سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں شامل ہر سینیٹر کے پاس کونی بیرٹ سے سوال پوچھنے کے لیے 30 منٹ تھے۔ بدھ کو بھی ایسا ہی سیشن ہو گا۔

جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایمی کونی بیرٹ کی نامزدگی کی منظوری کے لیے ابتدائی رائے دہی جمعرات کو مقرر کی ہے۔

آئندہ ہفتے حتمی منظوری کے لیے ووٹنگ ہو گی جب کہ ری پبلکن اکثریت والی پوری سینیٹ اس ماہ کے آخر میں ووٹنگ کے ذریعے سپریم کورٹ کے لیے جج کی نامزدگی کی توثیق کرے گی۔

نامزد جج بیرٹ سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں سوالات کے سیشن کے دوران
نامزد جج بیرٹ سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں سوالات کے سیشن کے دوران

پہلی سماعت پر کیا ہوا؟

پیر کے روز سماعت کا آغاز ہوا تو دورانِ سماعت ایک سوال کے جواب میں ایمی کونی بیرٹ کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو پالیسی سازی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، یہ کام امریکی صدر اور کانگریس پر چھوڑ دینا چاہیے۔

بیرٹ نے اعلیٰ عدالت کے کردار کی ایک تشریح پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تشکیل اس طرح نہیں کی گئی کہ وہ ہر مسئلے کا حل پیش کرے یا عوامی زندگی میں ہر غلطی کو سدھارے۔

ڈیموکریٹ جماعت کی سینیٹر ڈائن فائنسٹائن نے فوری طور پر اشارہ دیا تھا کہ جوڈیشری کمیٹی میں شامل، ڈیموکریٹ ارکان ایک پالیسی تنازع پر ایمی کونی بیرٹ سے سخت اور تیز سوالات کریں گے۔

یہ سولات ایفورڈ ایبل ہیلتھ کیئر ایکٹ پر 2012 میں اس کی قانونی حیثیت پر سپریم کورٹ کی جانب سے اس کے حق میں فیصلے پر ہوں گے۔

بیرٹ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یہ فیصلہ غلط طریقے سے کیا گیا تھا۔ سینیٹر فاینسٹائن کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ بیرٹ سماعت کے دوران اس پر اپنا مؤقف واضح کریں گی۔

سماعت کے دوران اپنے افتتاحی کلمات میں سینیٹر گراہم کا کہنا تھا کہ یہ سماعت ایک طویل اور اختلافات سے بھرپور ہفتے پر محیط ہو گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں انہیں علم ہے کہ رائے دہی کا نتیجہ کیا ہو گا۔

سینیٹر گراہم نے پیشگوئی کی کہ کمیٹی میں شامل 12 ری پبلکن ارکان نامزدگی کے حق میں جب کہ 10 ڈیموکریٹ ارکان خلاف ووٹ دیں گے۔

XS
SM
MD
LG