پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے 'شو آف ہینڈز' یعنی اوپن ووٹنگ کے ذریعے کرانے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومتی اتحاد نے مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث حزبِ اختلاف سے تعاون کی اپیل کی ہے۔
البتہ، حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حکومتی تجاویز پر اعتراض اُٹھا دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت کے تجویز کردہ طریقے سے 'سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ' کا تصور ختم ہو جائے گا جس سے لامحالہ وفاق کی علامت کہلائے جانے والے سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کی نمائندگی متاثر ہو گی۔
'سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ' سے مراد یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹر اپنے من پسند امیدوار کے علاوہ ترجیحی فہرست میں شامل دیگر اُمیدواروں کو بھی ووٹ دے سکتا ہے۔
اس طریقہ کار سے دوسری اور تیسری ترجیح کے ووٹ بھی شمار ہوجاتے ہیں اور صوبائی اسمبلی میں کم ممبران رکھنے والی جماعت دیگر کسی جماعت کے ساتھ اشتراک کر کے اپنے امیدوار کو کامیاب کرا سکتی ہے۔
سینیٹ کے انتخابات آئندہ سال مارچ میں ہونے جارہے ہیں جس میں ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی کے اراکین رائے شماری میں حصہ لیں گی۔
حکومتی وزرا شفقت محمود اور اعظم سواتی نے گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ووٹنگ کرانے کے لیے آئینی ترمیم لا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں بعض جماعتوں کو نمائندگی سے زیادہ نشستیں حاصل ہونے پر بعض سیاسی جماعتوں نے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے تھے۔
سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرانے کی زیادہ مخالفت اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ سال حکومتی حمایت یافتہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد واضح عددی برتری کے باوجود مسترد ہو گئی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے خفیہ رائے شماری میں ووٹ خریدے جانے کے الزامات عائد کیے تھے۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد سے قبل اپوزیشن کے 63 اراکین نے کھڑے ہو کر چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی۔ لیکن جب خفیہ ووٹنگ ہوئی تو 50 اراکین نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو حکومتی اور ریاستی اداروں کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا تھا اور سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے طریقہ کار کو بدلنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اب سینیٹ انتخابات میں چند ماہ کا وقت باقی ہے وفاقی وزیر شفقت محمود کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اُن کے بقول سینیٹ انتخابات سے متعلق تحفظات ختم کرنے کے لیے قانون سازی کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے جو اپوزیشن کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ لہذٰا حزب اختلاف کی جماعتیں مذکورہ قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دیں۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کی تعداد حزب اختلاف کی جماعتوں کے مقابلے میں کم ہے۔
پاکستان کے آئین میں کسی بھی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کہتے ہیں کہ ان کی جماعت پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں شفافیت لائی جائے۔ اس ضمن میں سینیٹ کے انتخابی قواعد میں تبدیلی اگر درکار ہو تو لائی جانی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے قواعد و ضوابط میں تبدیلی لاتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رکھی جائے کہ 1973 کے آئین کے مطابق سینیٹ کے قیام کا تصور مجروح نہ ہو۔
سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ 1973 کا آئین صوبوں کی ایوانِ بالا میں برابر نمائندگی اور صوبائی اسمبلیوں میں چھوٹی قوم پرست جماعتوں کو وفاق کی سطح پر اپنے نمائندے بھیجنے کا اختیار دیتا ہے۔
رضا ربانی کے بقول حکومت کی جانب سے تجویز کردہ قانون کے تحت اگر سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے تصور کو شو آف ہینڈ کے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے تو وفاق کی علامت سینیٹ میں چھوٹی قوم پرست جماعتوں کی نمائندگی نہیں ہو سکے گی۔
رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی نے معاملے پر بحث کے بعد متفقہ سفارشات کی ہیں جس کے تحت 'سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ' کو ختم کیے بغیر سینیٹ انتخابات میں شفافیت لائی جاسکتی ہے۔
سینیٹ کے نصف اراکین مارچ 2021 میں ریٹائر ہوجائیں گے اور چھ مارچ کو چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی کے اراکین 52 سینیٹ ممبران کا انتخاب کریں گی۔