رسائی کے لنکس

بچوں سے زیادتی کے مجرموں کی سرِ عام پھانسی کا مطالبہ


پاکستان کی پارلیمان کی عمارت (فائل فوٹو)
پاکستان کی پارلیمان کی عمارت (فائل فوٹو)

سانحۂ قصور کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش نے کمیٹی کو بتایا کہ زینب کا قاتل ایک دن میں بھی پکڑا جا سکتا ہے اور اس میں کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔

پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا 'سینیٹ' کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے معصوم بچوں اور بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیٹی نے اس مقصد کے لیے تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم کی سفارش بھی کردی ہے۔

ایوانِ بالا کی کمیٹی نے سینیٹر شاہی سید کی سربراہی میں ایک خصوصی ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو پورے ملک میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرے گی۔

کمیٹی کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر رحمان ملک کی صدارت میں ہوا جس میں قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی زینب کے والد اور والدہ نے بھی خصوصی شرکت کی۔

سانحۂ قصور کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش نے کمیٹی کو بتایا کہ جولائی سے اب تک کی تحقیقات کے مطابق قصور میں زینب کے علاوہ دیگر چھ بچیوں کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ اکتوبر 2017ء سے اب تک مشتبہ افراد کے 696 ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور 692 لوگوں سے تحقیقات کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ زینب کا قاتل ایک دن میں بھی پکڑا جا سکتا ہے اور اس میں کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ڈی آئی جی مردان نے عاصمہ قتل کیس کے بارے میں کمیٹی کو بتایا کہ 13 جنوری کو بچی عاصمہ اغوا ہوئی۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔ ریپ، قتل اور انتقام کے جزبے کو مدِ نظر رکھ کر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ جیو فینسنگ بھی کی جارہی ہے اور تحقیقات کو ہر طرح سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

زینب کی والدہ نے کمیٹی کے اجلاس میں روتے ہوئے دہائی دی کہ پولیس کہتی ہے کہ زینب کا قاتل سیریل کلر ہے۔ وہ سیریل کلر بنا بھی تو پولیس کی چھوٹ کی وجہ سے بنا۔

مقتولہ زینب کے والد محمد امین نے کمیٹی کو بتایا کہ جس روز بچی اغوا ہوئی اسی رات ریسکیو 15 پر کال کی تھی لیکن پولیس نے بچی کو ڈھونڈنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا۔ پولیس والے آتے تھے کینو کھاتے اور چائے پی کر چلے جاتے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے بچی کے اغوا کے پہلے پانچ دن تک کچھ بھی نہیں کیا۔

محمد امین نے بتایا کہ ہم نے اپنی فیملی کے کم سے کم 100 لوگوں کا ڈی این اے کرایا ہے لیکن پولیس ہمارے پڑوسیوں اور آس پاس رہنے والوں کو تنگ کر رہی ہے۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ تین مشکوک افراد گرفتار کیے گئے ہیں لیکن پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزمان کا زینب سے کوئی تعلق نہیں۔

محمد امین نے دعویٰ کیا کہ قصور کی ایک اور بچی بھی اغوا ہوئی ہے جس کی رپورٹ درج نہیں کی گئی اور پولیس نے مغوی بچی کے والدین کو ڈرایا ہوا ہے۔

کمیٹی نے متفقہ طور پر تعزیراتِ پاکستان کی شق 364 اے اور 264A میں ترمیم کی سفارش کی ہے جس کے مطابق چھوٹے بچوں کے اغوا، ریپ اور قتل میں ملوث مجرموں کو سرِ عام پھانسی دی جا سکے گی۔

کمیٹی نے زینب اور عاصمہ کے قتل کے واقعات کے خلاف قراردادِ مذمت بھی منظور کی ۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ اغوا و زیادتی کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے، بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم پر کمیشن قائم کیا جائے اور پولیس فوری مدد کے لیے واٹس ایپ نمبر بھی متعارف کرائے۔

XS
SM
MD
LG