امریکی محکمہٴ خارجہ نے ’’پاکستان میں قائم دہشت گرد تنظیم، لشکر طیبہ (ایل اِی ٹی) سے متعلق اعلان میں ترمیم کرتے ہوئے، اِس میں ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) اور تحریکِ آزادیِ کشمیر (ٹی اے جے کے) کے فرضی ناموں کو بھی شامل کیا ہے‘‘۔
’’اِن ناموں کی عرفیت کو لشکر طیبہ سے متعلق غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (ایف ٹی او) کو ’امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ‘ کی شق 219 کے اعلان کے تحت لایا گیا ہے؛ اور اُسے 13224 کے انتظامی حکم کے تحت خصوصی طور پر عالمی دہشت گرد تنظیم (ایس ڈ ی جی ٹی) میں شمار کیا گیا ہے‘‘۔
یہ بات محکمہٴ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے پیر کو جاری کردہ ایک اخباری بیان میں کہی گئی ہے۔
بیان کے مطابق، ’’اس اعلان کے بعد لشکر طیبہ کو اُن وسائل سے محروم کیا گیا ہے جو اُسے مزید دہشت گرد حملوں کی منصوبہ سازی اور عمل درآمد میں درکار ہو سکتے ہیں‘‘۔
اعلان کے دیگر مضمرات میں یہ بھی شامل ہے کہ ’’اگر لشکر طیبہ کی امریکہ کی تحویل میں کوئی جائیداد یا مفادات ہیں، تو اُنھیں منجمد کیا گیا ہے، اور عمومی طور پر کسی امریکی شہری پر گروپ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی مالی لین دین کرنے پر ممانعت عائد ہوگی‘‘۔
امریکی محکمہٴخارجہ میں انسداد دہشت گردی کے رابطہ کار، ایمبسیڈر نتھن اے سیلز نے توجہ مبذول کرائی ہے کہ ’’آج کی اِن ترامیم کا ہدف لشکر طیبہ کی وہ کوششیں ہیں جو وہ پابندیوں سے بچنے اور عوام سے اپنا اصل چہرہ چھپانے کے لیے کر رہی ہے۔ کوئی غلط فہمی نہ رہے: لشکر طیبہ اپنے آپ کو کسی بھی نام سے پکارے، یہ پُرتشدد دہشت گرد گروپ ہی رہے گا۔ امریکہ اُن تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے تاکہ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ لشکر طیبہ کسی سیاسی آواز کی حامل نہ بنے، تاوقتیکہ وہ تشدد کو اپنی دھونس کا آلہٴ کار بنانے سے باز نہیں آتی‘‘۔
سنہ 1980 میں بننے والی لشکر طیبہ نومبر 2008ء میں بھارت کے ممبئی کے دہشت گرد حملوں کی ذمہ دار ہے، جس میں 166 افراد ہلاک ہوئے، جن میں چھ امریکی شامل ہیں؛ جب کہ حالیہ برسوں کے دوران درجنوں بھارتی سکیورٹی افواج اور شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’لشکر طیبہ پاکستان میں آزادی کے ساتھ کام کر رہی ہے، جس میں عام جلسے کرنا، چندہ اکٹھا کرنا اور دہشت گرد حملوں کی منصوبہ سازی اور تربیت حاصل کرنا شامل ہے‘‘۔
محکمہٴ خارجہ نے 26 دسمبر 2001ء میں ’’لشکر طیبہ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم اور خصوصی عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اُس کے سربراہ، حافظ محمد سعید کو بھی خصوصی عالمی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’پابندیوں سے بچنے کے لیے، لشکر طیبہ نے گذشتہ برسوں کے دوران کئی بار اپنا نام تبدیل کیا ہے‘‘۔
’’جنوری 2017ء میں لشکر طیبہ نے اپنا نام تحریک آزادی کشمیر رکھا۔ لشکر طیبہ اسی نام کے تحت دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث رہی، جس میں دہشت گردی پر ابھارنے کے ساتھ ساتھ بھرتی کرنے اور رقوم اکٹھی کرنے کے کام شامل ہیں۔ اگست 2017ء میں لشکر طیبہ کے سربراہ، حافظ سعید نے ’ایم ایم ایل‘ قائم کی، تاکہ گروپ کا سیاسی محاذ کھڑا کیا جاسکے۔ لشکر طیبہ کے ارکان ہی ’ایم ایم ایل‘ کی قیادت کرتے ہیں، جب کہ یہ خودساختہ پارٹی انتخابی تختیوں اور مواد میں سعید کی پسندیدگی کا کھلم کھلا اظہار کرتی ہے‘‘۔
محکمہٴ خارجہ کے آج کے اقدام کے ساتھ، امریکی محکمہ خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ ’ایم ایم ایل‘ کی مرکزی قیادت کی تنظیم کے سات ارکان کا لشکر طیبہ سے ہی تعلق ہے۔ اُن کے نام ہیں: سیف اللہ خالد، مزمل اقبال ہاشمی، محمد حارث ڈار، تابش قیوم، فیاض احمد، فیصل ندیم اور محمد احسان۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’آج کے اقدام سے امریکی عوام اور بین الاقوامی برادری کو مطلع کیا گیا ہے کہ ’ٹی اے جے کے‘ اور ’ایم ایم ایل‘، دراصل ’لشکر طیبہ کی ہی عرفیت ہیں‘۔
اعلان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اعلانیہ دہشت گرد قرار دیے جانے کے نتیجے میں تنظیموں اور افراد کو بے نقاب اور تنہا؛ اور امریکی مالیاتی نظام تک رسائی سے محروم کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، دہشت گرد ہونے کے اعلان سے امریکی اداروں اور دیگر حکومتوں کی جانب سے قانون کے نفاذ کی کارروائیوں میں مدد ملتی ہے‘‘۔