بعض تصورات بہت پیچیدہ ہوتے ہیں، اتنے بڑے کہ آپ ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے یا بہت چھوٹے اور کچھ ایسی چیزیں اور کچھ اتنے بڑے بڑے فاصلے کہ وہ زیادہ تر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آپاتے ۔ اور اکثر اوقات سائنس دانوں کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ وہ کس طرح سادہ سے سادہ زبان میں لوگوں کو یہ تصورات سمجھا سکیں۔
لیکن اب سائنس کیفے کے نام سے اس مسئلے کے حل کی ایک راہ تلاش کی جارہی ہے اور سائنس دانوں کو لیبارٹری سے نکال کر کمیونٹی میں کھانے کی میز پر لایا جارہاہے تاکہ وہ سائنس کے مشکل تصورات پر عام لوگوں سے ان کی اپنی زبان میں گفتگوکرسکیں۔
زیادہ تر لوگ سائنس کاعلم اسکولوں، میڈیا یا انٹرنیٹ سے حاصل کرتے ہیں ، لیکن سائنس کیفے میں وہ سائنس کی باتیں براہ راست سائنس دانوں سے سیکھ سکتے ہیں۔
ایل ویمان ، گذشتہ چار سال سے میزوری کے سینٹ لوئیس سائنس سینٹر میں ماہانہ بنیاد پر ایک سائنس کیفے کا اہتمام کررہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ سائنس کیفے دراصل ایک ایسا تصور ہے جس کا آغاز یورپ سے ہوا تھا اور بنیادی طورپر اس کامقصد سائنس دانوں کو عام لوگوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں شریک کرنا تھا۔ ویمان کہتے ہیں کہ سائنس کیفے کو کامیاب بنانے میں یہ چیز بہت اہم ہے کہ اس کا اہتمام کس جگہ یا کس ریستوران یا کس قہوہ خانے میں کیا جارہا ہے۔
اس وقت امریکہ بھر کے قہوہ خانوں اور ریستورانوں میں ایک سو سے زیادہ سائنس کیفے کام کررہے ہیں۔ ان محفلوں میں چند افراد سے لے کر لگ بھگ ایک سو لوگ شریک ہوتے ہیں۔ جس کا انحصار اس پرہوتا ہے کہ ان کا موضوع کیا ہے۔ سینٹ لوئیس میں دو سائنس کیفے ہیں۔
دوسرا سائنس کیفے، واشنگٹن یونیورسٹی کے زیر اہتمام شلافی باٹل ورکس نامی قہوہ خانے میں ماہانہ بنیادوں پر ہوتا ہے۔اس کی منتظم سنتھیا وچل مین ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سائنس کی ان محفلوں میں واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر اپنی تحقیق کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور ان میں زندگی کے مختلف شعبوں اور طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان محفلوں میں مختلف شعبوں کے ماہرین شریک ہوتے ہیں۔ ان میں انجنیئر بھی ہوتے ہیں اور ڈاکٹر بھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی جنہیں سائنس میں دلچسپی ہوتی ہے یا پھر وہ ریٹائرڈ افراد ہوتے ہیں، یا وہ طالب علم ہوتے جو مزید کچھ سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
سائنس کیفے میں حصہ لینے والی ایک خاتون کیری سموتھرز کہتی ہیں کہ دراصل میں سائنس کے مضمون میں کافی کمزور تھی ، لیکن ان محفلوں میں شرکت کے بعد سائنس کے بارے میں میری معلومات بڑھ رہی ہیں اور وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ جب سائنس کی گفتگو کے ساتھ ساتھ کھانا پینا بھی چلتا رہے تو سائنس کی باتیں ہضم کرنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے۔
ران راجرز بھی ان محفلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ سائنس کیفے کو ایک مہذب تعلیم قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کلاس کے لیکچرز اصل میں یک طرفہ ہوتے ہیں جس میں زیادہ تر پروفیسر بولتا ہے۔ لیکن ان محفلوں میں آپ سائنس کے موضوعات پر ایک خوشگوار اور غیر رسمی ماحول میں بحث مباحثے میں شریک ہوتے ہیں اور اس طرح آپ کو بات جلد سمجھ میں آجاتی ہے۔
سائنس کی ان محفلوں میں گفتگو کے موضوعات اتنے ہی متنوع ہوتے ہیں جتنی کہ خود سائنسی تحقیق ۔ بلیک ہول سے لے کر بیالوجیکل کلاک اور علم النباتات تک کے موضوعات۔ یہ محفلیں اس وقت اپنے عروج پر پہنچتی ہیں جن سائنس دانوں کی گفتگو ختم ہوتی ہے اور عام لوگ بحث میں شریک ہوجاتے ہیں۔نئے نئے سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور سائنس دان عام فہم اور بات چیت کے انداز میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔