رسائی کے لنکس

’سب گول مال ہے‘بھارتی کشمیر میں70 کروڑ ڈالر کا گھٹالہ


پولیس نے فراڈ کا پردہ فاش ہونے کے بعد سری نگر میں
کیوریٹیو سروے پرائیویٹ لمیٹڈ کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔ وی اے او کے لیے وسیم نبی کا فوٹو
پولیس نے فراڈ کا پردہ فاش ہونے کے بعد سری نگر میں کیوریٹیو سروے پرائیویٹ لمیٹڈ کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔ وی اے او کے لیے وسیم نبی کا فوٹو

25 سالہ سیلز مین منیر احمد صوفی کو ستمبر میں ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والی نے انہیں بتایا کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک اسٹارٹ اپ کمپنی کیورٹیو سروے پرائیویٹ لمیٹڈ کی اہل کار ہیں۔

خاتون نے صوفی کو کمپنی کے بارے میں بتایا کہ وہ کاسمیٹک مصنوعات متعارف کرانے سے پہلے ایک سروے کر رہی ہے۔ انہوں نے منیر احمد صوفی سے کہا کہ وہ ان کی کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ یا موبائل ایپلیکیشن پر اکاؤنٹ کھولنے کے بعد آن لائن سروے میں شامل ہوں۔

"انہوں نے مجھے بتایاکہ میں ان کی کمپنی میں پیسہ لگا کر بہت زیادہ منافع کما سکتا ہوں،" صوفی نے VOA کو بتایا۔ "میں نے اپنے دوستوں سے بات کی، اور انہوں نےمجھے سمجھایا بھی کہ یہ کوئی فراڈ ہوسکتا ہے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کمپنی اسٹاک مارکیٹ کے لیےکام کر رہی ہو۔"

صوفی نے بتایا کہ وہ اگلے ہی دن سری نگر کے کرن نگر محلے میں واقع ان کے دفتر گئے، اور عملے نے انہیں موبائل ایپلیکیشن کو چلانے کا طریقہ سمجھایا۔

آن لائن فراڈ: ’ڈالر کمانے کے چکر میں لاکھوں روپے ڈوب گئے‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:11 0:00

صوفی نے بتایا کہ وہاں کیوریٹیو سروے پرائیویٹ لمیٹڈنے اکاؤنٹ کھولنے کے لیےان سے 60 ڈالر چارج کیے، لیکن یہ بھی کہ کمپنی نے انہیں اگلے 15 دنوں میں 20 سوالات کے جوابات دینے کے لیے 75 ڈالر ادا کیے۔

اس رقم کی وصولی نے لگتا ہے ان کے دل میں بھروسہ پیدا کیا۔

آپ نے دیکھا ہمیشہ سیدھے سادے لوگوں کو پھنسانے کے لیے ایسے ہی جال بچھایا جا تا ہے۔

صوفی بھی اب اپنی غلطی مانتے ہیں۔"میں نےجلد از جلد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے دسمبر کے وسط تک اس کمپنی میں تقریباً 3 ہزار6 سو ڈالرکی سرمایہ کاری کی،" صوفی نے کہا۔

لیکن پھر 15 دسمبر کو جب انہوں نے اپنے اکاؤنٹ سےکچھ رقم نکالنے کی کوشش کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئےکہ اکاؤنٹ کی تفصیلات اور دیگر معلومات بدل دی گئی ہیں۔

گھبرا کر انہوں نے عملے کو فون کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا،پھر وہ اس کے دفتر گئے اور پتہ چلا کہ وہ خالی پڑا تھا۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کیوریٹیو سروے پرائیویٹ لمیٹڈ 709.45 ملین ڈالر کا گھوٹالہ ثابت ہوا۔ اس گھوٹالے کو کشمیر کی ایک مشہور بالی ووڈ فلم "پھر ہیرا پھیری" کے حقیقی زندگی کے ورژن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

فلم کے کردار مالی مشکلات کا شکار تھے۔ انہوں نے ایک اسکیم میں سرمایہ کاری کی جس میں 21 دنوں میں دوگنا منافعے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ فلم میں اسکیم ایک فراڈ نکلی ہے۔

نافع جاوید نے 16 دسمبر کو یوٹیوب اور فیس بک پر ایک آگاہی ویڈیو پوسٹ کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کیوریٹیو سروے پرائیویٹ لمیٹڈ "تحقیق کرنے کے بعد ایک بڑا گھٹالہ" نکلی۔

مواد تخلیق کرنے والے نافی جاوید نے وادی کشمیر میں کروڑوں ڈالر کے گھٹالے کو سرخیوں میں آنے سے پہلے بے نقاب کیا تھا۔
مواد تخلیق کرنے والے نافی جاوید نے وادی کشمیر میں کروڑوں ڈالر کے گھٹالے کو سرخیوں میں آنے سے پہلے بے نقاب کیا تھا۔

جاوید نے VOA کو بتایا، "جس چیز سےمجھے ان کے بارے میں شک پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ ایک سٹارٹ اپ اتنا زیادہ منافع کیسے دے سکتا ہے جتنا میٹا اور گوگل جیسی کمپنیاں بھی نہیں دے سکتیں۔"

جاوید نے وزارت کی’ مائیکرو، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ‘کی ویب سائٹ پر کمپنی کی تفصیلات چیک کیں تو پتہ چلا کہ ایک ہی نام سے دو کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ ایک جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے چنئی شہر میں تھی اور دوسری جموں و کشمیر کے جموں ضلع میں۔

جاوید نے تفصیلات جاننے کے لیے کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ بھی دیکھی لیکن مالک کا نام نہیں مل سکا۔

جاوید کا کہنا ہےکہ، "مجھے یقین ہے کہ سرکاری ویب سائٹ پر ظاہر ہونے والے منیجنگ ڈائریکٹرز کے نام جعلی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مالکان نے کشمیر کے دورے میں بھی فرضی نام استعمال کئے ہوں۔‘‘

کمپنی نے خطے کے سری نگر، بڈگام، بارہ مولہ اور جموں اضلاع میں دفاتر قائم کیے تھے۔ انہوں نے مارکیٹنگ اور آف لائن ادائیگیاں جمع کرنے کے لیے ایک درجن سے زیادہ مقامی ملازمین کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔

لانچ سے پہلے مالکان نے، جن کی شناخت لکشمن اور رائے کے نام سے ہوئی اور جنکے بارے میں خیال ہے کہ وہ چنئی کے رہائشی ہیں،انہوں نے دو مقامی سوشل میڈیا انفلوئنسرز، ادریس میر اور یاور وانی سے رابطہ کیا تھا تاکہ مقامی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فراڈ کی اس سکیم کی طرف راغب کیا جا سکے۔

آن لائن فراڈ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:23 0:00

ان دونوں نے پروموشنل ویڈیوز بنائیں جس میں "سرمایہ کاری کے بدلے بھاری منافع" کی ضمانت دی گئی تھی۔

جب میر اور وانی سے ان کے تبصروں کے لیے رابطہ کیا گیا، تو ان کے فون بند تھے۔

بارہ مولہ ضلع میں پٹن کے ایراگام علاقے کی رہائشی تبسم میر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک دوست کے مشورے پر, ساڑھے 20 ہزار ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی تھی۔

تبسم میر نے کہا کہ وہ شروع میں تو ہچکچا رہی تھیں،لیکن پھران کی ایک دوست نے انہیں اپنے تجربے کے بارےبتایا کہ سرمایہ کاری کے بعد سے کتنا کمایا ہے۔

لیکن تبسم اب بھی قائل نہیں تھیں۔لوگوں کو منافع کماتے ہوئے دیکھنے کے باوجود انہیں غیر مقامی لوگوں پر بھروسہ نہیں تھا لیکن مقامی لوگوں نے، جنہوں نے لکشمن اور رائے کے لیے کام کیا تھا ، عدالتی حلف نامہ کے ساتھ گاؤں والوں کو فرنچائز کے دستاویزات دکھائے۔

وہ کہتی ہیں"سوشل میڈیاانفلونسرز نے اس گھٹالے میں سرمایہ کاری کرنے کے ہمارے فیصلے پر اثر ڈالاتھا،" انہوں نے مزید کہا کہ اس کے گاؤں کے تقریباً ہر گھرانے نے کمپنی میں سرمایہ کاری کی، جو 600 ڈالر سے لے کر 30 ہزار ڈالر تک تھی۔"

تبسم میر نے کہا کہ کیوریٹو سروے پرائیویٹ لمیٹڈ کے بارے میں خبروں نے اس کے گاؤں کے بہت سے لوگوں کی ذہنی صحت پر اثر ڈالا ہے۔۔

کراچی: اے ٹی ایم فراڈ، سات چینی باشندے گرفتار
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:40 0:00

میر نے کہا، "لوگوں نے کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دوستوں، رشتہ داروں سے پیسے ادھار لیے اور زیورات تک بیچے اور اب وہ سب یہ سوچ کر دباؤ میں ہیں کہ یہ رقم کیسے واپس کی جائے۔"

تبسم نے خود اپنے خاندان کی کہانی سنائی،۔ "میری بہن نے اس اسکیم میں ڈھائی ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور جب اس کے سسرال والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اسے واپس میکے بھیج دیا اور رقم ملنے کے بعد ہی واپس آنےکو کہا ۔"

جموں و کشمیر پولیس کا یہی کہنا ہے کہ یہ سب ایک فراڈ تھا۔ پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ""تلاشیوں کے دوران مجرمانہ مواد، بشمول الیکٹرانک آلات اور دستاویزات، ضبط کیے گئےہیں۔"

پولیس نے مزید کہا کہ کمپنی کے رجسٹرڈ مالکان کی شناخت کی جا رہی ہے اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔

امریکہ: کووڈ کی امدادی رقوم میں بڑے پیمانے پر فراڈ
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

سائبر پولیس کشمیر نے ایکس پر، جو پہلے ٹویٹر تھا، ایک پوسٹ میں، مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ متاثرین سے مالی فراڈ سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات شیئر کرنے کو کہاہے۔

اسی اثنا میں، سینکڑوں لوگ اپنی اپنی کہانیوں کے ساتھ، سری نگر کے مقامی سائبر پولیس اسٹیشن میں دستاویزات جمع کرانے کے لیے پہنچ گئے۔

امتیاز احمد نے کہا کہ میرے پاس امید کے سوا کچھ نہیں بچا۔ "ہم اپنے علاوہ کسی اور پر الزام نہیں لگاسکتے۔ ہمیں لالچ میں نہیں پڑنا چاہئیے تھا۔‘

وائس آف امریکہ کے رپورٹر محیط الاسلام کی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG