رسائی کے لنکس

عسکریت پسندوں کے حملوں میں جانی نقصان؛ بھارتی کشمیر میں فوج کا گرینڈ آپریشن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں عسکریت پسندوں کی طرف سے جمعرات کی سہہ پہر کو کیے گیے حملے میں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد بھارتی فوج نے علاقے میں ایک بڑا آپریشن شروع کر دیا ہے۔ اس آپریشن میں جموں و کشمیر پولیس کا شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) اور وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف بھی حصہ لے رہے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز نے پیر پنجال سلسلہ کوہ میں گھنے جنگلات سے گھرے پونچھ اور راجوری اضلاع کے کئی علاقوں کی ناکہ بندی کر دی ۔

ہفتے کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے ضلع پونچھ میں تین شہریوں کو مبینہ طور پر فوج کی حراست میں ہلاک کرنے کے واقعے پر 'قانونی کارروائی' کرنے کا اعلان کردیا ۔ اس نے یہ بھی کہا ہےکہ مارے گیے افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے گااور ہر کنبے کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت میں لیا جائے گا۔

بھارتی فوج نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے اس اعلان کی حمایت کرتی ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ حکام کو پورا تعاون دے گی۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ جمعرات کو پونچھ کے ڈیرا کی گلی کے مقام پر دو فوجی گاڑیوں پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے وسیع پیمانے پر شروع کیا گیا آپریشن جاری ہے۔اس حملے میں پانچ بھارتی فوجی ہلاک اور دو شدید زخمی ہوئے تھے۔

پونچھ کے ٹوپا پیر گاؤں کے تین افراد سفیر حسین، محمد شوکت اور شبیر احمد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ ان تقریبا" بیس افراد میں شامل تھے جنہیں فوجی جمعرات کو پیش آئے واقعے کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے گیے تھےلیکن جمعے کی شام کو ان کی لاشیں ملیں جن پر تشدد کے واضح گہرے نشان تھے۔ دو ایسی ویڈیوز بھی سامنے آگئی ہیں جن میں فوجی وردیوںمیں ملبوس افراد کو علاقے کے چند شہریوں کی مارپیٹ اور انہیں ننگا کرکے ان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس دوران، علاقے میں شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف لوگوں میں پائےجانے والے غم و غصے اور اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج اور حکومت کو اس معاملے پرآڑے ہاتھوں لینے کے بیچ حکام نے پونچھ اور راجوری اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل کردی ہیں۔

حکام نے کہا ہےکہ ایسا حفظ ما تقدم کے طور پر کیا گیا ہے تاکہ افوابازی پر روک لگائی جاسکے اور شر پسند عناصر کی طرف سے امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی کوششوں کا توڑ کیا جاسکے۔ شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف پونچھ کے بفلیاز اور چند دوسرے علاقوں میں جمعے اور ہفتے کو احتجاجی مظاہرے کیے گیے۔

اس سے قبل ، سرمائی صدر مقام جموں سے پونچھ شہر اور سرینگر کو جانے والی شاہراہوں پر گاڑیوں کی آمدو رفت روک دی گئی ہے اور مسافروں گاڑیوں اور مال بردار ٹرکوں کو متبادل روٹ اختیار کرنے کا کہا گیا۔

راجوری کے تھنہ منڈی علاقے سے ملی ایک اطلاع کے مطابق بھارتی فوج کے ایلیٹ پیرا کمانڈوز بھی عسکریت پسندوں کے خلاف اس آپریشن میں شامل ہو گئے ہیں جب کہ فضائی نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹرز اور حملہ آوروں کی سمت کا پتا لگانے کے لیے سراغ رساں کتوں کو بھی استعمال میں لایا گیا۔

جمعرات کی سہہ پہر بھارتی فوج کی گاڑیوں پر چھپ کر کیے گئے حملے میں تین فوجی موقع ہی پر ہلاک ہو گئے تھے جب کہ چار شدید طور پر زخمی ہونے والے سپاہیوں میں سے دو بعد میں اسپتال میں چل بسے تھے۔

بھارتی فوج کی 16 ویں کور نے جمعے کو 'ایکس' پوسٹ میں صرف چار فوجیوں کے ہلاک ہونے کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے وہ اپنے ان سپاہیوں کی بہادری اور عظیم قربانی کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے دہشت گردی کی لعنت سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں دیں۔

جموں میں بھارتی فوج کے ایک ترجمان لیفٹننٹ کرنل سنیل برتوال نے کہا کہ فوج نے جموں و کشمیر پولیس کے ساتھ مل کر پونچھ کے سورن کوٹ اور راجوری کے تھنہ منڈی میں بدھ کی شام کو ایک آپریشن شروع کیا تھا۔

فوجی ترجمان نے کہا کہ اس آپریشن میں مدد دینے کے لیے اضافی فوجی دو گاڑیوں میں سوار ہوکر ڈیرا کی گلی کی طرف رواں تھے تو جمعرات کو ساڑھے تین بجے کے قریب دھت یار موڑ کے مقام پر عسکریت پسندوں نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔

ترجمان نے کہا کہ فوجیوں نے اس حملے کا فوری طور پر مناسب جواب دیا اور پھر طرفین کے درمیان گولیوں کے تبادلے میں فوج کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

پولیس ذرائع کے مطابق فوج کی 48 راشٹریہ رائفلز کے سپاہیوں کو لے جانے والی ان دو گاڑیوں، ایک سوزوکی جیپ اور ون ٹن ٹرک کو خود کار اسلحے اور دستی بموں سے ہدف بنانے کے بعد عسکریت پسند ہلاک اور زخمی فوجیوں کے ہتھیاربھی اپنے ساتھ لے گئے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس حملے کی ذمے داری 'دی پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ (پی اے ایف ایف) نے قبول کی ہے۔ بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ پی اے ایف ایف دراصل کالعدم لشکرِ طیبہ کا آف شوٹ یا شاخ ہے۔

رواں برس 11 اکتوبر سے لے کر اب تک اس علاقے میں عسکریت پسندوں کی طرف سے چھپ کر کیے گئے حملوں اور طرفین کے درمیان ہوئی جھڑپوں میں پانچ افسران سمیت بھارتی فوج کے 18 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز نے کالعدم لشکرِ طیبہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر سمیت دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پولیس کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق راجوری اور پونچھ اضلاع میں اکتوبر 2021 سے لے کر 21دسمبر 2023 تک عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز پر نو مرتبہ حملے کیے ہیں یا طرفین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں کئی افسروں سمیت بھارتی فوج کے 36 سپاہی ہلاک ہو گیے ہیں۔

صرف رواں برس کے دوران کیے گیے چار بڑے حملوں میں 20 فوجی مارے گئے ہیں۔ اس سے پہلے یکم جنوری 2023 کو دو مشتبہ عسکریت پسندوں نے راجوری کے اپر ڈانگری گاؤں پر دھاوا بول کر سات ہندو مکینوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

ڈیرا کی گلی ہی کے مقام پر اس سال 11 اکتوبر کو پانچ فوجیوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھارتی فوج، جموں و کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف نے راجوری اور پونچھ کے ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لے کر ایک بڑا آپریشن شروع کر دیا تھا۔ لیکن تقریباً ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس آپریشن کے دوراں دو صوبیداروں سمیت بھارتی فوج کے مزید نو سپاہی مارے گئے تھے۔

ایک الگ واقعے میں جو 22 نومبر کو راجوری کے باجی مال نامی علاقے میں دو دن تک جاری رہنے والی ایک جھڑپ میں دو کپتانوں سمیت پانچ فوجی اور دو عسکریت پسند مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کے بارے میں بھارتی فوج کا کہنا تھا کہ وہ غیر ملکی دہشت گرد تھے۔

فوج نے یہ بھی کہا تھا کہ ان دو غیر ملکیوں میں لشکرِ طیبہ کا ایک کمانڈر بھی شامل تھا جسے مقامی لوگ قاری کے نام سے جانتے تھے۔ بھارتی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا "وہ ایک پاکستانی شہری اور ایک کٹر دہشت گرد تھا جسے پاک افغان سرحد پر تربیت دی گئی تھی اور ایک سال قبل لائن آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کرنے کے بعد راجوری اور پونچھ میں خاصا سرگرم تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

رواں برس پانچ مئی کو راجوری ہی کے کنڈی علاقے میں کیے گیے بارودی سرنگ کے دھماکے میں پانچ فوجی کمانڈوز ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے پہلے 20 اپریل کو پونچھ کے دوریاں مینڈھر علاقے میں اتنی ہی تعداد میں ہلاک ہو گئے تھے۔

بھارتی فوج نے 18جولائی 2023 کو پونچھ کی سورن کوٹ تحصیل میں واقع پہاڑی مقام سندھارا ٹاپ پر چار کٹر دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

(اس خبر کو ہفتے کے روز اپ ڈیٹ کیا گیا )

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG