رسائی کے لنکس

سائفر کیس؛ سپریم کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود کی ضمانت منظور کر لی


سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر گمشدگی کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت منظور کر لی ہے۔

عدالتِ عظمیٰ نے جمعے کو سماعت کے دوران پراسیکیوشن کے دلائل کے بعد کہا کہ جو دستاویزات دکھائی جارہی ہیں اس سے کسی طور پر کیس ثابت نہیں ہوتا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ بھی بینچ میں شامل ہیں۔

عدالت نے دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض دونوں رہنماؤں کی ضمانت منظور کی۔ بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیرِ اعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔

اس الزام کی بنیاد پر 15 اگست 2023 کو عمران خان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔ پی ٹی آئی کا مؤقف رہا ہے کہ سائفر بھیجنے کا مقصد عمران خان کی حکومت کو ہٹانا تھا۔

اس کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی اور وزارتِ قانون کی طرف سے عمران خان کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا۔

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 29 اگست کو پہلی مرتبہ سائفر کیس کی سماعت کی جس کے دوران عمران خان پر فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد 10 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے تھے۔

لیکن بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل ٹرائل کی بنیاد پر اس کیس کی تمام کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں دوبارہ ٹرائل کے دوران 13 دسمبر کو دونوں ملزمان پر دوبارہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جمعے کو سماعت کے دوران کیا ہوا؟

دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟ اس دوران تفتیشی افسر نے کہا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں؟

اس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہے۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ اعظم خان کے مطابق پی ٹی آئی کا ان پر دباؤ تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے؟ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا؟

رضوان عباسی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سائفر معاملے پر غیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو دستاویزات دکھائی جا رہی ہیں اس کے مطابق تو غیرملکی طاقت کا نقصان ہوا ہے۔ کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے؟ ہر دور میں سیاسی رہنمائوں کیساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہو گا؟ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا اس کی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بھارت میں ہماری جگ ہنسائی تو کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے اس پر کیا کریں گے۔

پی ٹی آئی کو کیا فائدہ ہو گا؟

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے بینچ نے آج اس کیس کو کھوکھلا پایا، اس پر جو آبزرویشن سامنے آئی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کیس میں کچھ بھی نہیں تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس کیس میں کسی دشمن ملک کو فائدہ ہوا اس بارے میں پراسیکیوشن نے کچھ نہیں بتایا۔ سائفر کہیں گیا ہی نہیں وہ آج بھی وزارتِ خارجہ کے پاس محفوظ ہے۔ وزیرِاعطم کے پاس جو کاپی گئی وہ وزیرِ اعطم کے پرنسپل سیکریٹری کے پاس تھی اور ان کو ایک ماہ تک غائب رکھنے کے بعد سامنے لایا گیا۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس کیس کا ٹرائل چل رہا ہے لیکن سائفر کیس ختم ہو چکا ہے اور اب ٹرائل کورٹ اس بارے میں جو بھی کہے وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کیے جانے والے دلائل اور دیگر باتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی جا رہی ہے لیکن درحقیقت پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ اس بارے میں ہم نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے اور امید ہے کہ الیکشن کمیشن اس بارے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

اس سوال پر کہ عمران خان اور شاہ محمود کی ضمانت سے آئندہ انتخابات اور پی ٹی آئی کی سیاست پر کیا فرق پڑے گا؟ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم فیصلہ ہے اور عمران خان اور شاہ محمود قریشی اگر جیل سے باہر آتے ہیں تو اس سے پاکستان کی سیاست یکسر تبدیل ہو جائے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف بنائے گئے بیشتر کیسز بوگس ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انتخابات سے پہلے عمران خان جیل سے باہر ہوں گے اور اپنی پارٹی کی قیادت کریں گے۔

تجزیہ کار اور پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی معاملات پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت اگر شاہ محمود قریشی جیل سے باہر آتے ہیں تو وہ اپنی جماعت کے لیے بہت بہتر ثابت ہوں گے۔

اُن کے بقول شاہ محمود قریشی پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں اور موجودہ چیئرمین گوہر خان ان سے بہت زیادہ جونیئر ہیں۔ اگر شاہ محمود قریشی کو قائم مقام چیئرمین کا عہدہ دیا جاتا تو وہ زیادہ بہتر انداز میں پارٹی کی قیادت کرسکتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا باہر ہونا پی ٹی آئی کے لیے بہت فائدہ مند ہو گا۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے میں بھی مشکل کا سامنا ہے۔ کئی مقامات پر ان کے لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔

احمد بلال محبوب کے بقول کاغذات نامزدگی جمع کروانا کسی کا بھی حق ہے اور انہیں زبردستی اس عمل سے روکنا درست نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے موقع ملنا چاہیے۔

فورم

XS
SM
MD
LG