پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما دستاویزات کے معاملے سے متعلق مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی 'جے آئی ٹی' تشکیل دے دی ہے۔
اس بات کا اعلان جمعہ کو پانا لیکس کے معاملے سے متعلق مزید تحقیقات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں قائم کیے گئے تین رکن بینچ کی طرف سے جاری ایک مختصر بیان میں کیا گیا۔
اس چھ رکنی کمیٹی کے سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر واجد ضیا جب کہ دیگر اراکین میں اسٹیٹ بینک کے افسر عامر عزیز، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بلال رسول، قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کے ڈائریکٹر عرفان نعیم منگی کے علاوہ فوج کے دو انٹیلی اداروں کے افسروں کو شامل کیا گیا ہے ان میں بریگیڈئیر محمد نعمان سعید کا تعلق آئی ایس آئی اور بریگیڈئیر کامران خورشید کا تعلق ملٹری انٹیلی جنس سے ہے۔
عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اگر ضروری سمجھے تو وہ ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کر سکتی ہے۔
عدالتی عظمیٰ نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی عدالت عظمیٰ کے ہدایت پر قائم کی جا رہی ہے اس لیے پاکستان بھر میں تمام حکام 'جے آئی ٹی' کو معاونت فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔
قبل ازیں جب جمعہ کو اس معاملے کی سماعت شروع ہوئی تو اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر ریاض الدین ریاض اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ظفر حجازی نے عدالت میں اپنے اپنے اداروں میں کام کرنے والے سینکٹروں افسران کے ناموں کی فہرست عدالت میں پیش کی تھی۔
واضح رہے سپریم کورٹ نے تمام چھ متعلقہ اداروں کو 'جے آئی ٹی' کی تشکیل کے لیے اپنے اپنے افسران کے نام فراہم کرنے کا کہا تھا تاہم ابتدا میں سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی طرف سے فراہم کیے گئے ناموں کو مسترد کر دیا۔
جمعہ کو سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس افضل خان نے سیاسی راہنماؤں اور ذرائع ابلاغ پر پاناما کیس کے فیصلے سے متعلق کیے جانے والے تبصروں پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قطع نظر اس بات کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں عدالت انصاف کرے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے راہنما اور وکیل چوہدری فواد نے جمعہ کو سپریم کورٹ کے باہرنامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ اس معاملے پر میڈیا میں بحث ہونی چاہیے ۔
" یہ ہمارا کیس نہیں ہے،عمران خان کا ذاتی کیس نہیں ہے ۔۔ یہ پاکستان کے 20 کروڑ لوگوں کا کیس ہے اور یہ مقدمہ لوگوں کے پاس جانا ہے اس پر بحث ہونی ہے۔"
واضح رہےکہ پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے بعد 20 اپریل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا تھا، جس میں اس معاملے کی مزید تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ’جے آئی ٹی‘ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بیٹوں حسن اور حسین نواز سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ تحقیقاتی عمل میں حصہ بنیں۔
اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنی رپورٹ 60 روز میں سپریم کورٹ میں پیش کرنی ہو گی جب کہ ہر 15 روز کے بعد اس ٹیم کو تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے بھی عدالت کو آگاہ کرنا ہو گا۔
سپریم کورٹ میں اب اس معاملے کی آئندہ سماعت 22 مئی کو ہو گی۔