رسائی کے لنکس

'یہ بچے کون ہیں، ان کا وارث کون ہے؟'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بچوں کے حقوق کی ابتر صورتحال کا تذکرہ تو آئے روز سامنے آتا رہتا ہے۔ لیکن بچوں کے اغوا، گمشدگیوں اور اسمگلنگ کے واقعات میں اضافے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں متعلقہ اداروں کی طرف سے ناکافی اقدام پر عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔

انسانی حقوق خصوصاً بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ضیا احمد اعوان نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں حکومت، چاروں صوبوں کے محکمہ داخلہ سمیت 37 اداروں کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے ناکافی اقدام دیکھنے میں آئے ہیں لہذا ان اداروں سے جواب طلب کیا جائے۔

پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایسے بچوں سے متعلق مستند اعدادوشمار موجود نہیں ہیں اور ان کی طرف سے ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی رپورٹس اور دیگر حوالوں سے حاصل کردہ معلومات یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

لیکن ضیا احمد اعوان کہتے ہیں کہ یہاں مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں ہے اور نہ ہی کسی پر الزام تراشی، بلکہ مطمع نظر یہ ہے کہ اس ضمن میں کوئی موثر اور مربوط نظام وضع کیا جائے۔

"اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد ایسے بہت سارے کیسز ہمارے سامنے آتے ہیں جو (بچے) پاکستان سے باہر اسمگل ہو جاتے ہیں یا پاکستان کے اندر اسمگل ہو کر آتے ہیں یا ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آتے ہیں تو اس کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اب صوبوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ لوگوں کے تحفظ کے لیے کام کرے تو یہ ہم نے عدالت سے کہا ہے کہ یہ ادارے بتائیں کہ ان کے پاس کیا حکمت عملی ہے۔"

حکومتی عہدیداران یہ کہتے آئے ہیں کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حالیہ برسوں میں قانون سازی کی گئی جب کہ مختلف شہروں میں ان کے لیے علیحدہ سے محتسب بھی مقرر کیے گئے ہیں جو ان شکایات کے ازالے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

لیکن ضیا اعوان کہتے ہیں کہ ادارے بنانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ ان اداروں کی کارکردگی ان کے بقول اس طرح تسلی بخش نہیں ہوتی کہ وہ عوامی سطح پر کوئی بڑی معاونت کر رہے ہوں۔

"ڈیٹا بہت زیادہ ہے جو نظر نہیں آرہا ہے اور بچے مختلف انداز میں غائب ہو رہے ہیں مطلب جو بچے گم جاتے ہیں ان میں گھروں سے بھاگے بھی ہوتے ہیں ان میں اسمگل ہونے والے بھی ہوتے ہیں ان میں بھکاری بھی ہیں جو آپ کو ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نظر آتے ہیں یہ کون ہیں ہم یہ جاننا چاہتے ہیں حکومت سے کہ یہ کہاں سے آئے ہیں ان کا وارث کون ہے۔"

گزشتہ ماہ ہی ملک میں مردم شماری کا عمل مکمل ہوا ہے جس میں لاوارث بچوں سمیت گداگر بچوں کے بارے میں بھی اعداد و شمار جمع کرنے کا بتایا گیا ہے اور توقع ہے کہ مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اس ضمن میں صورتحال واضح ہو سکے گی۔

ضیا اعوان کا کہنا تھا کہ جس طرح دیگر جرائم کے خلاف حکمت عملی وضع کی جاتی ہے اسی طرح اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی ایسی حکمت عملی کا ہونا بہت ضروری ہے جو کہ کارگر ہو۔

XS
SM
MD
LG