پاکستان کی سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ سے کہا ہے کہ وہ جج کے خلاف انضباطی کارروائی کرے، جب کہ تین درخواست گزاروں میں سے ایک نے عدالتی فیصلے کو معاملہ نمٹانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جاری کردہ 25 صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی اُن کے خلاف فرد جرم ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کے کیس سے متعلق ایک اپیل ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے تو اس مرحلے پر ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں ہوگا، ایف آئی اے میں بھی اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ویڈیو درست ثابت ہونے پر ہائیکورٹ خود معاملے کا جائزہ لے سکتی ہے اور ویڈیو کا معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھی بھجوا سکتی ہے۔
فیصلے کے مطابق، جج ارشد ملک کا تعصب ثابت کرنے کے لیے ویڈیو ہائی کورٹ میں پیش کی جائے، فوجداری مقدمہ میں شک و شبہ سے بالاتر شواہد کا ہونا ضروری ہے۔ جج ارشد ملک کے مطابق ویڈیو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، ویڈیو کی تصدیق فرانزک ایگزامینیشن سے ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جج ارشد ملک کا کردار پوری عدلیہ پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس میں پانچ معاملات سامنے آئے ہیں۔ پہلا یہ تھا کہ کون سا فورم ویڈیو پر فیصلہ دے سکتا ہے۔ دوسرا ایشو تھا کہ ویڈیو کو حقیقی کیسے جانا جائے۔ تیسرا معاملہ یہ تھا کہ اگر ویڈیو اصل ہے تو عدالت میں کیسے ثابت کیا جا سکے گا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ویڈیو اسکینڈل کیس میں چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ ویڈیو اصل ثابت ہونے پر اس کا نواز شریف کی سزا پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ جب کہ پانچواں معاملہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے کنڈکٹ سے متعلق تھا۔ ہم نے تمام ایشوز پر فیصلہ سنایا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ موقع نہیں جہاں ویڈیو سے متعلق عدالت مداخلت کرے۔ ویڈیو سے متعلق فوجداری اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ کوئی عدالت کمیشن کی رائے تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہوگی۔ آصف زرداری کیس میں بھی جج کی آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی، آڈیو ٹیپ باضابطہ طور پر پیش نہ کرنے پر عدالت نے مسترد کر دی تھی۔
جج ارشد ملک کا مس کنڈکٹ
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سزا دینے کے بعد جج ارشد ملک نے ملزم سے اس کے گھر میں ملاقات کی، وہ ملزمان کے ہمدردوں کے ساتھ بھی ملتے رہے۔
انہوں نے مجرم کو اپنے ہی فیصلے کے کمزور نکات بتائے۔ انہوں نے رشوت کی پیشکشوں اور دھمکانے کی شکایت سینئر اتھارٹی سے نہیں کی۔ ان کا طرز عمل حیران کُن ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، جج ارشد ملک کے کردار نے ہزاروں ایماندار ججز کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ جج ارشد ملک کے خلاف لاہور ہائی کورٹ انضباطی کارروائی کرے گی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں تین شہریوں اشتیاق مرزا، سہیل اختر اور طارق اسد نے جج ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کی درخواستیں دائر کی تھیں۔
درخواست گزار طارق اسد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، اس کیس میں درخواست گزاروں کو نہیں سنا گیا اور صرف اٹارنی جنرل کی بات سننے کے بعد فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے لگتا ہے کہ جج ارشد ملک کا معاملہ ختم کیا گیا ہے کیونکہ میڈیا پر اس حوالے سے بحث ہو رہی تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے اس معاملے کو نمٹایا گیا ہے۔
جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جج ارشد ملک کی ویڈیو مریم نواز نے 6 جولائی 2019 کو ایک پریس کانفرنس میں جاری کی تھی جس کے اگلے ہی روز جج ارشد ملک نے پریس ریلیز کے ذریعے خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی تھی۔
اس معاملے پر جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات کی جس کے بعد ہائی کورٹ نے 12 جولائی کو انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور ان کی خدمات وفاق کو واپس کردیں۔
جج ارشد ملک نے ایک بیان حلفی بھی دیا تھا جس میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ انہیں بلیک میل کر کے نواز شریف اور حسین نواز سے ملاقاتیں کروائی گئیں اور انہیں بھاری رشوت کی پیشکش بھی کی گئی۔
سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے حوالے سے کہا ہے کہ ارشد ملک کے کردار سے تمام ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔