سپریم کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے کہا کہ آپ نے تقریر میں اپنا بغض نکال دیا۔ آپ نے لوگوں کے بارے میں شکایتیں کرنے کے لیے عوامی فورم کا انتخاب کیا۔ ہمیں ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے۔ اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ یہ نئی روش شروع ہوئی ہے کہ سب کچھ پبلک کر دیں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چار مرتبہ چیف جسٹس سے ملاقات کی کوشش کی لیکن ملاقات نہ ہو سکی۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کیا موجودہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل نے خود ہی بنایا ہے؟ جس پر شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ ریفرنس صدر مملکت نے نہیں بھیجا تھا۔ کونسل نے خود نوٹس لیا ہے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ شکایت موصول ہونے پر کارروائی کی ہے۔
حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس اور ان کے جوابات کی بنیاد پر جج کو برطرف کیا۔ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی صدارتی ریفرنس کا حوالہ دیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وقت قلیل ہے اتنی تفصیل میں مت جائیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس تقریر کا ہونا، اس کا متن، اس کے حقائق سب معلوم ہیں۔ آپ نے تقریر میں اپنا بغض نکال دیا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے سب مواد موجود تھا اور اس سے انکار نہیں کیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ صرف دو سوالوں کے جواب دیں۔ کیا یہ تقریر جج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھی یا نہیں؟ ہمیں یہ بھی سمجھا دیں کہ کونسل کو مزید تحقیقات کی ضرورت تھی یا نہیں؟
اس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اوپن ٹرائل کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی۔ جج کی مدتِ ملازمت کے تحفظ کے لیے اس کو بہت سے طریقۂ کار دیے گئے ہیں۔ تحقیقات ہونی چاہیے تھی تا کہ سچ سامنے آ جاتا۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ آئین میں کسی جج کو وزیرِ اعظم یا پارلیمنٹ فارغ نہیں کر سکتی۔ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے مدت ملازمت کے تحفظ کے لیے ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا ادارے پر حملے کی صورت میں پہلے تحفظات سے آگاہ کر دیا جاتا؟
اس پر حامد خان نے انکشاف کیا کہ چیف جسٹس پاکستان سے ملنے کے لیے شوکت صدیقی نے چار مرتبہ وقت لینے کی کوشش کی۔ لیکن یہ درخواست قبول نہیں کی گئی اور ملاقات نہیں کی گئی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ یہ مان بھی لیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو کہا سچ تھا۔ تو کیا انہیں عدلیہ کے اندر معاملہ حل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ شوکت عزیز صدیقی کو ایسے معاملے پر خود توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا۔
حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نام نہ لیتے تو بھی جرم، نام لے لیا تو بھی جرم۔ جب معاملہ چیف جسٹس کے علم میں آیا تو انہوں نے بھی توہینِ عدالت کا نوٹس نہیں لیا۔
انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جو کرنا ہے کریں۔ البتہ انہوں نے اپنی تقریر میں جن کا نام لیا ہے ان سے بھی پوچھا جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس کو رپورٹ بھیجتے تو وہ اس پر کارروائی کرتے۔ البتہ شوکت عزیز صدیقی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اگر مداخلت کی بات ہے تو عدلیہ کی آزادی کے کئی اور پہلو بھی ہیں۔ اگر ایک جج غلط کرتا ہے تو پوری عدلیہ کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کا مداخلت کے لیے پبلک فورم کا استعمال غلط تھا۔ شوکت عزیز صدیقی خاموشی سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے ملتے رہے۔ اگر وہ بطور جج بینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ سکتے تھے تو اس معاملے پر کیوں نہ لکھا۔
حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ جو ہو رہا تھا۔ انہوں نے عوام میں بتا کر جرات کا مظاہرہ کیا۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عوام کو بتانا جرات نہیں ہتھیار پھینکنا ہے۔
حامد خان نے کہا کہ شوکت صدیقی کی تقریر کا مقصد عدلیہ کو بدنام کرنے کی نہیں نظام کو بہتر کرنے کی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو خطرہ تھا کہ اگر تحقیقات شروع ہوئی تو میرا موکل جنرلز کو بلانے کا کہے گا۔ اسی خطرے سے بچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل نے میرے موکل کے خلاف ایسے باتیں کیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں 30 جون کا خیال ہے۔ آرڈر کر رہے ہیں کہ جیسے ہی بینچ دستیاب ہو گا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
بعد ازاں کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
کیس کا پس منظر
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تھے اور اپنے سخت بیانات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ البتہ 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں تقریر کے دوران انہوں نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر سخت تنقید کی اور الزام عائد کیا کہ ان پر خفیہ ادارے کی طرف سے فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
اس بارے میں اعلیٰ عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر انہیں بطور جج ہٹا دیا تھا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس بارے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن کئی بار ان کی اپیل عدالت میں نہ لگ سکی۔
اپیل کی سماعت تاخیر سے ہونے پر انہوں نے چیف جسٹس کو جلد سماعت کے لیے درخواست بھی دی۔ البتہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کیس کئی مرتبہ ڈی لسٹ ہوا جس کے بعد حالیہ دنوں میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت ہوئی ہے۔