سعودی عرب اس وقت مثبت تبدیلی سے گزر رہا ہے یہ کہنا ہے سعودی عرب کی شہزادی ریما بنت بندر السعود کا جو جنرل اسپورٹس اتھارٹی کے منصوبہ بندی اور ترقیاتی ادارے کی نائب سربراہ ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں بات اب صرف عورتوں کے حقوق کی نہیں بلکہ صنفی غیر جانبداری کی ہے۔ کیونکہ سعودیی عرب ایک بین القوامی معاشرے کا حصہ ہے جس کیلئے ہم بین القوامی شہری تیار کرنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے کیلئے ہمارے پاس 2030 کا ٹارگٹ ہے۔
فروری 2018 میں اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبدالعزیز نے شہزادی ریما کو سعودی خواتین کو اولمپکس میں نمائندگی کیلئے تیار کرنے اور ایک اسپورٹس اکانومی (معیشت) کی بنیاد رکھنے ذمہ داری سونپی تھی۔ جسکے خلاف اس وقت وہاں کے مذہبی رہنماوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔
انکا کہنا ہے کہ سعودی عرب اسپورٹس، انٹرٹینمینٹ اور کمیونٹی ایکٹیوٹیز کو بیک وقت فروغ دینا چاہتا ہے، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم اسوقت تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم شائید اپنے وعدے پورے نہ کرسکیں اور واپس پیچھے کی طرف چلے جائیں، ان سے کچھ مہلت مانگتے ہوئے ہم انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم آگے ضرور بڑھیں گے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے لئے کیا اہم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو پابندیاں ہماری ترقی کی راہ میں حائل نہیں، ہم انہیں کیوں ترک کریں؟ انکا کہنا ہے کہ معاشرے کی ظاہری شکل قدامت پسندی کی ترجمان نہیں۔ یہ ایک ذہنی کیفیت ہے اسکا تعلق سر ڈھکنے یا پردہ کرنے سے سے نہیں۔
شہزادی ریما بنت بندر السعود شہزادہ بندر بن عبدالعزیز کی صاحبزادی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار واشنگٹن ڈی سی میں اٹلانٹک کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کیا، جہاں انہوں نے ٹی وی کیمروں کو فلم بندی کی اجازت نہیں دی اور میڈیا کو انٹرویو دینے سے گریز کیا۔