پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ ہفتوں میں ہونے والے اعلیٰ سطحی رابطوں کے بعد دونوں ملکوں کی طرف سے باہمی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق تو کیا گیا لیکن اس کے باوجود ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں جو اسلام آباد اور کابل کے درمیان باہمی اعتماد کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایک روز قبل ہی افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ایک ترجمان دوا خان مینہ پال نے وی او اے کی افغان سروس سے گفتگو میں پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ گزشتہ سالوں میں ملک کے قبائلی علاقوں میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے عسکریت پسند فرار ہو کر سرحد پار چلے گئے ہیں۔
مینہ پال نے کہا کہ دنیا یہ جانتی ہے کہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانے کہاں ہیں اور پاکستان پر زور دیا کہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ پاکستان تواتر کے ساتھ کابل کے ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
اسلام آباد کا موقف ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں وہ عناصر ملوث ہیں جن کے ٹھکانے مبینہ طور پر افغانستان میں ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اپنے عزم کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان پر الزام عائد کرنے کی بجائے افغانستان اپنے علاقوں کو اپنے موثر کنٹرول میں لانے کی کوشش بھی کرے۔
ہفتہ کو دیر گئے پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مشیر برائے امور خاجہ سرتاج عزیز نے بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغان طالبان کے ٹھکانوں کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن و سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی کئی اندرونی وجوہات ہیں۔
"ان کے ہاں چونکہ بہت زیادہ تشویش ہے کیونکہ جس طرح وہاں ان کے فوجی جوان ہلاک ہو رہے ہیں اور وہاں ان کی اندرونی مشکلات ہیں اور اس کی وجہ سے وہاں یہ رواج بن گیا ہے وہاں جو بھی مسئلہ ہو اس کا الزام پاکستان پر عائد کرو۔"
سرتاج عزیز نے کہا افغانستان میں امن مذاکرات کے ذریعے ہی آئے گا اور ان کے بقول پاکستان افغانوں کی قیادت میں امن کی کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ باہمی رابطوں کے بعد اسلام آباد اور کابل نے ایک نگرانی کا طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا تاکہ دونوں ملکوں کے باہمی خدشات کو دور کیا جا سکے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی درمیان رابطوں کے باوجود کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے اور اس کی ایک وجہ وہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد کے فقدان کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کے سابق سفارت کار اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند نے کہا کہ اگر چہ اس بات میں ان کے بقول کوئی حقیقت نہیں کہ بعض لوگ پاکستان سے جا کر افغانستان میں تخریب کاری کرتے ہیں لیکن پاکستان اس کا موثر دفاع کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رستم شاہ نے کہا کہ افغانستان میں امن کا قیام کے لیے افغان تنازع کی بنیادی وجوہات کا تعین کرنا ضروری ہے۔
" جو شورش کی بنیادی وجوہات ہیں ان کو ختم کرنا ضروری ہے ۔۔ صرف پاکستان اور افغانستان کے سربراہان حکومت کے درمیان ملاقات سے بات آگے نہیں بڑھے گی بات اس وقت آگے بڑھے گی جب پہلے اس (تنازع) کی بنیادی وجوہات کا تعین نہیں ہوتا اس کے بعد سارے فریق امریکہ، افغان حکومت اور طالبان مل کر ایسا فارمولا تلاش کریں جس کی بنیاد پر وہاں پر امن قائم ہو سکے۔"
اسلام آباد اور کابل کے درمیان حالیہ مہینوں میں تناؤ کے باوجود مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو اپنے باہمی رابطوں کو موثر اور پائیدار بنانے کی ضرورت ہے جو ناصرف افغانستان بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔