شاعری ہو، تھیٹر، ٹی وی یا فلمی دنیا، سرمد صہبائی ہر میدان میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ وہ انہیں آرٹ کی مختلف قسمیں اور اظہار کے مختلف انداز گردانتے ہیں۔ اکتوبر میں ان کی تحریر کردہ فلم ’ماہ میر‘ ریلیز ہو رہی ہے، جس میں انہوں نے اردو کے کلاسیکی شاعر، میر تقی میر پر قلم اٹھایا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں، اس فلم کے مصنف نے بتایا کہ خدائے سخن، میر تقی میر کو ھمیشہ اسی گھسے پٹے انداز میں محض آہ کا شاعر کہا جاتا ہے، جو کہیں ٹک روتے روتے سوگیا ہو۔ لیکن، میرے نزدیک وہ اس روایتی عکس سے کہیں آگے ہیں اور میں نے اس فلم میں میر کی سوانح نہیں بلکہ ان کی وحشت کو موضوع بنایا ہے۔
سرمد کہتے ہیں کہ جب میر نوجوان تھے تو پورے چاند کی رات اور چاندنی انھیں وحشت میں مبتلا کر دیتی تھی اور انہیں ایک پری جمال نظر آیا کرتی تھی۔ یس بات کا ذکر انہوں نے اپنی ایک مثنوی میں بھی کیا ہے۔ بس اسی کو سامنے رکھتے ہوئے، ھم نے میر کی ’میڈنیس‘ یا وحشت کو اس فلم میں پیش کیا ہے۔
سرمد صہبائی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ ایک ایسے نوجوان جدید شاعر کی کہانی ہے جو قدیم شعری روایت اور کلاسک کو مانتا ہے نہ ہی میر کو کچھ سمجھتا ہے۔ وہ انہیں فرسودہ سمجھتا ہے۔ لیکن، جب اس جدید شاعر کا راستہ انہی کٹھن حالات سے پڑتا ہے اور غم اسے اپنی لذت سے آشنا کرتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ میر کے تجربے میں داخل ہو جاتا ہے۔
سرمد نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ یہ فارمولا فلم نہیں ہے۔ یہ ایک لحاظ سے بلکل نیا تجربہ ہے اور ایک مختلف کیفیت کا اظہار ہے۔
تفصیل سننے کے لیے، درجِ ذیل آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: