سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں جواب داخل کرا دیا ہے۔
سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ''میں اپنی جاسوسی سےتنگ آچکی ہوں''۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سےکم ٹیکس دینے والے عمران خان کس طرح 300 کنال کی جائیداد رکھ اور خرچ برداشت کرتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھی میڈیا پر آکر کردار کشی کرتے ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے جمعرات کے روز ایف بی آر میں خود کو جاری کیے گئے نوٹس پر اہنی جائیداد کی تفصیلات اور اپنا جواب جمع کروایا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے اپنے جواب کے ساتھ چھ صفحات کا ایک خط بھی کمشنر ایف بی آر ذوالفقار احمد کو لکھا۔ ایف بی آر میں سماعت کے ایک روز بعد انہوں نے یہ خط میڈیا کو جاری کیا، کیونکہ ان کے مطابق، بعض چینلز پر ان کے حوالے سے غلط خبریں چلائی جارہی تھیں۔
اہلیہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ایف بی آر کو لندن جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کیں اور ان کے ساتھ ان سے متعلق دستاویزات بھی ایف بی آر کو فراہم کردی ہیں۔
جواب میں ان کا کہنا ہے کہ سال2004 میں لندن میں ایک بیڈ روم کا اپارٹمنٹ خریدا،16 سال قبل خریدے گئے اپارٹمنٹ کی قیمت 2 لاکھ، 36 ہزار پاونڈ تھی۔
یہ اپارٹمنٹ کیوں خریدا اس بارے میں سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ مجھے اور میرے خاوند کو کوئٹہ میں حملے کی دھمکی ملی اور کچھ عرصہ بعد ہم دونوں پر حملہ بھی کیا گیا۔ مجھے خوف تھا کہ دہشتگردوں کا اگلا حملہ کامیاب ہوسکتا ہے، میں نے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے لندن کے مضافات میں سستی جائیداد خریدی تاکہ اگر ہمیں کچھ ہو بھی جاتا تو ہم خوش ہوتے کہ ہمارے بچے تو محفوظ مقام پر ہیں۔
سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے خاوند بچوں کو لندن منتقل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ میرے بیٹی اور بیٹا دونوں شادی شدہ اور اہل خانہ کے ساتھ لندن میں رہائش پذیر ہیں، میرا بیٹا اسٹیٹ ایجنسی میں کام کرتا ہے اور پرائیوٹ کام بھی کرتا ہے، جبکہ میرا داماد برطانیہ کی قانون و انصاف کی وزارت میں کام کرتا ہے، میری بیٹی مالی مشیر کی حثیت سے لندن میں کام کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013 میں بیٹی کو ایک اور جائیدادا 2 لاکھ، 70 ہزار پاونڈ میں خریدنے میں مدد کی،2013 میں بیٹے کو 2 لاکھ، 45 ہزار پاونڈ میں جائیداد خریدنے میں مدد کی، بیٹی اور بیٹے کی جائیداد میرے بھی نام ہے۔
ایف بی آر کی طرف سے جاری کردہ اپنے نام نوٹس میں نے خود موصول کیا، جبکہ میرے بیٹی اور بیٹے کے نام نوٹسز واپس ایف بی آر کو دے دیا۔ اگر ایف بی آر کو میری بیٹی اور بیٹے سے معلومات چاہیے تو ان سے براہ راست رابطہ کرے۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ گزشتہ سال ایف بی آر آفس گئی تو افسر نے بتایا آپ سے متعلق حکم اوپر سے آیا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا گروہ مئی 2019 کا حساب برابر کرنے کیلئے مجھے اور میرے بچوں کو ٹارگٹ کررہا ہے، بتایا جائے کہ ایف بی آر پانچ سال کے بعد ایسے معاملات پر جواب طلب کر سکتا ہے، میرے لیگل ایڈوائزر کے مطابق فارن کرنسی اکاونٹ پر سوال پوچھا نہیں جاسکتا، بتائیں کہ میرے لیگل ایڈوائزر کا مشورہ درست تھا یا نہیں؟
انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھ نہیں سکی مجھے ٹیکس نوٹس مالی سال 2018-19 کا بھیجا گیا، پراپرٹی میں نے 2004 اور 2013 میں خریدی، لیکن اب نوٹس کا کیا جواز بنتا ہے، مجھے معلوم ہے عمران خان ٹی وی پر آئے گا اور کہے گا میں جواب نہیں دے رہی اور اس کے بعد میرے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کیا جائیگا۔ انہوں نے ایف بی آر کے افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یقین رکھتی ہوں آپ بطور سنئیر افسر عمران خان کے گروہ کے بدنیتی پراپیگنڈہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
سرینا عیسیٰ نے اپنے جواب میں کہا کہ لندن کی پراپرٹی اپنے ناموں پر خریدی، اگر ان پراپرٹیز کو چھپانا ہوتا تو آف شور کمپنی کے نیچے چھپا سکتے تھے۔ اگر یقین نہیں تو عمران خان، اور اسکے تجربہ کار ٹولے سے پوچھا جائے کہ بیرون ملک جائیدادوں کی ملکیت کیسے چھپائی جاتی ہے۔
ایف بی آر نے منی ٹریل کا پوچھا لیکن مجھے نہیں پتہ آپکا منی ٹریل کا مطلب کیا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں منی ٹریل کا ذکر کہاں ہے؟ پراپرٹیز خریدنے کا کوئی معاہدہ ہے ہی نہیں، لندن میں خیریدنے اور بیچنے والا براہ راست لین دین نہیں کرتا، جائیدادیں سولیسیٹر کے ذریعے خریدیں گئیں۔
ایف بی آر میں جمع کرائے گئے ٹیکس کے حوالے سے سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سال 2018 میں 5 لاکھ، 76 ہزار، 540 روپے ٹیکس ادا کیا اور 2019 میں 8 لاکھ، 9 ہزار، 970 روپے ٹیکس ادا کیا۔
اہلیہ جسٹس قاضی فائز نے چیئرپرسن ایف بی آر کی تبدیلی پر بھی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ نوشین یوسف اس ٹولے کیلئے کام نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ کیا پورے ایف بی آر کو سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کی خدمت پر لگا دیا گیا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایف بی آر عمران خان سےپوچھ سکتا ہے کہ وہ مجھ سے کم ٹیکس کیوں دیتےہیں۔ ہمیں ہر روز بتایا جاتا ہے کہ ہم مدینہ کی ریاست کے لیے کوشاں ہیں۔ کیا عمران خان اور انکے ساتھیوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں بیویوں اور بچوں کی تفصیلات فراہم کیں؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عمران خان اورانکےقریبی ساتھیوں کاٹیکس ریکارڈ فراہم کیا جائےکہ انھوں نےکب ٹیکس دینا شروع کیا؟ کیا ایف بی آر مجھے عمران خان، عبدالوحید ڈوگر، شہزاد اکبر، انور منصور خان، فروغ نسیم کے ٹیکس گوشوارے دے سکتا ہے؟
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایک سال سےمیرے ساتھ کسی کرمنل جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں دوسرے لوگوں کو گھسیٹنا نہیں چاہتی۔ اپنی جاسوسی سےتنگ آچکی ہوں۔ مجھ سے کم ٹیکس دینے والےعمران خان کس طرح 300کنال کی جائیداد رکھ اورخرچ برداشت کرتےہیں۔ عمران خان کے ساتھی میڈیا پر آکر کردار کشی کرتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا سپریم کورٹ میں بیان
18 جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کے خلاف ان کی درخواست کی سماعت کے دوران سرینا عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان ویڈیو لنک پر ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہوں نے اپنی لندن کی تمام جائیدادوں کی تفصیل عدالت میں پیش کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں بلاوجہ نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے خلاف الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
بیان کے دوران آبدیدہ ہوتے ہوئے سرینا عیسیٰ نے اپنی کراچی کی جائیدادوں کو فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم برطانیہ منتقل کرنے کے حوالے سے دستاویزات دکھائیں جو عدالت نے سربمہر لفافے میں طلب کرلیں،
فائز عیسیٰ کیس میں ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم
19 جون کو عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں فائز عیسیٰ کی درخواست کو منظور کرلیا اور ان کے خلاف دائر کردہ حکومتی ریفرنس اور شوکاز نوٹس کالعدم قرار دیدیا۔ بینچ میں شامل 10 ججز میں سے 7 ججز نے جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا۔ فیصلے کے مطابق ایف بی آر اہلیہ کو 7 دن کے اندر نوٹس جاری کرنے کا کہا گیا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ایف بی آر کے نوٹس جج کی سرکاری رہائش گاہ پر ارسال کیے جائیں، ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے، ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں، چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے، ایف بی آر حکام معاملے پر التوا بھی نہ دیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نوٹسز اسلام آباد میں درخواست گزار کی آفیشل رہائش گاہ پر کوریئر سروس یا دیگر ایسے ذرائع کے ذریعے جسے مناسب سمجھا جا سکتا ہے جاری کیے جائیں گے۔
فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تو یہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی ایسے شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔
جوابات موصول ہونے پر اور اگر مدعی کی جانب سے وضاحت کے لیے اضافی دستاویزات یا ریکارڈ جمع کرایا جاتا ہے تو کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور 2001 کے آرڈیننس کے مطابق حکم جاری کرے گا۔
عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ نوٹسز موصول یونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔
کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین ساعت سے متعلق اپنے دستخط شدہ رپورٹ اپنے سپریم کورٹ کے سیکریٹری کے ذریعے کونسل میں جمع کروائیں گے۔
سکریٹری رپورٹ کو کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھیں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائرے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے، اگر کونسل کی جانب سے کوئی کارروائی کا حکم یا ہدایت دی جاتی ہے تو وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ازخود نوٹس کا دائرہ کار استعمال کرے گی۔
آرڈر کے 100 دن کے اندر چیئرمین ایف بی آر کی طرف سے سیکرٹری کو رپورٹ موصول نہ ہونے پر وہ چیئرمین کونسل کو آگاہ کریں، چیئرمین کونسل کی ہدایت پر سیکریٹری چیئرمین ایف بی آر سے رپورٹ جمع نہ کرانے پر وضاحت طلب کریں گے۔
جج فائز عیسیٰ کو دھمکیوں پر سرینا عیسیٰ پولیس سٹیشن میں
25 جون کو سرینا عیسیٰ نے اسلام آباد کے سیکرٹریٹ پولیس سٹیشن میں ایک درخواست جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو موجود ہے جس میں ایک شخص ان کے شوہر کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے،
اس شخص کے حوالے سے سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور آغا افتخار الدین نامی شخص کو ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا، اس شخص نے معافی نامہ جمع کروایا۔ تاہم عدالت نے معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے اور ملزم اس وقت ایف آئی اے کے پاس سات دن کے ریمانڈ پر موجود ہے۔