اسماعیل کا تعلق بمبئی سے ہے لیکن اب وہ امریکا میں رہتا ہے۔ وہ فارماسیوٹیکل سیلزمین ہے اور اکثر سفر کرتا ہے۔ اسے ٹی وی پر رئیلٹی شو دیکھنے کا شوق ہے۔ بولی ووڈ کی ایک سابق اداکارہ نیویارک میں دن کے وقت ٹاک شو کی میزبانی کرتی ہے اور اسماعیل اس کا پرستار ہے۔ وہ اسے ’’کی شوٹ‘‘ کے نام سے محبت نامے بھیجتا ہے اور عشق میں دیوانہ ہوکر پورے امریکا میں مارا مارا پھرتا ہے۔
پھر کیا ہوا؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو سلمان رشدی کا نیا ناول ’’کی شوٹ‘‘ پڑھنا پڑے گا۔ پیر کو امریکا کے شہر ہیرس برگ میں اس ناول پر گفتگو کے لیے تقریب ہوئی جس میں سلمان رشدی شریک ہوئے۔ مڈٹاؤن اسکالر بک اسٹور میں اس گفتگو کی میزبان نوجوان ادیبہ کیسی سیپ تھیں۔
سلمان رشدی نے اعتراف کیا کہ انھیں یہ ناول لکھنے کا خیال میگوئیل ڈی سروانتس کے ناول ’’ڈان کی ہوٹے‘‘ کو دوسری بار پڑھتے ہوئے آیا۔ جس طرح ڈان کی ہوٹے ایک ناممکن کی جستجو میں تھا، اسی طرح ان کے ناول کا مرکزی کردار ایک ناممکن عشق میں مبتلا ہے۔
ہسپانوی میں ’’کی ہوٹے‘‘ فرانسیسی میں ’’کی شوٹ‘‘ بن جاتا ہے جو رشدی کا مرکزی کردار ہے۔ اس کے خیالی بیٹے کا نام ’’سانچو‘‘ ہے کیونکہ خود ساختہ فوجی جرنیل ڈان کی ہوٹے کے اردلی کا نام سانچو تھا۔ دونوں ناولوں کی ہیروئنوں میں بھی مماثلت ہے۔
کیسی سیپ نے پوچھا کہ کیا آپ خود اس ناول میں کسی کردار میں موجود ہیں؟ سلمان رشدی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ناول کے کردار اداکارہ سلمیٰ آر اور ان کے نام میں فقط ایک حرف کا فرق ہے۔ لیکن وہ اسماعیل کی طرح کار میں پورے امریکا کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ 72 سالہ سلمان رشدی نے، جو گزشتہ 20 سال سے امریکا میں مقیم ہیں، بتایا کہ ایک بار انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا۔ بیٹے نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیا آپ کو ڈرائیونگ کرنا آتی ہے؟ انھوں نے بتایا کہ وہ اس کی پیدائش سے پہلے بھی ڈرائیونگ کیا کرتے تھے۔ بیٹے نے اصرار کیا کہ اس سفر میں گاڑی وہ چلائے گا۔ انھوں نے مذاق کیا کہ بیٹے کا ارادہ جان کر انھوں نے ارادہ بدل دیا۔
غالباً سلمان رشدی کے بیٹے نے یہ سوال اس لیے کیا کہ اس نے والد کو شاہراہ پر گاڑی چلاتے نہیں دیکھا ہوگا۔ رشدی کے چوتھے ناول 'سیٹینک ورسز' کی اشاعت کے بعد مسلم دنیا میں شدید احتجاج ہوا تھا اور ایران کے سپریم لیڈر امام خمینی نے ان کے خلاف فتوی جاری کیا تھا، جس کی وجہ سے سلمان رشدی کو طویل عرصے تک سخت سیکیورٹی میں رہنا پڑا تھا۔
تقریب میں سلمان رشدی سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اب بھی اسی طرح سخت سیکیورٹی میں زندگی گزار رہے ہیں؟ انھوں نے کہا، 'سیٹینک ورسز' ان کا چوتھا ناول تھا اور مجموعی طور پر پانچویں کتاب، 'کی شوٹ' ان کا 14واں ناول ہے اور مجموعی طور پر 19ویں کتاب۔ زندگی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔
رشدی نے زینو فوبیا یعنی دوسرے ملکوں کے افراد کے لیے ناپسندگی کے رجحان پر بھی اظہار خیال کیا اور صدر ٹرمپ کو طنز کا نشانہ بنایا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ کسی جادو سے ٹرمپ کو غائب کردیا جائے، تو بھی دنیا سے ان کی سوچ ختم نہیں کی جاسکتی۔ برطانیہ میں بریگزٹ کا مسئلہ دیکھ لیں، پورے یورپ میں یہ سوچ موجود ہے بلکہ بھارت تک میں یہ سوچ پنپ رہی ہے۔
رشدی نے کہا کہ دور حاضر کا المیہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں سچ پر حملہ کیا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر سچ اور جھوٹ ایک ساتھ موجود ہیں اور دونوں کا وزن برابر ہے۔ یہ تمیز کرنا آسان نہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ فکشن کا مقصد قاری کو سچ کی راہ پر لے جانا ہوتا ہے۔