معروف اداکارہ و ہدایت کارہ سکینہ سموں کی نئی فلم 'انتظار' کرونا وبا کی وجہ سے دو برس سے ریلیز کی منتظر تھی، تاہم اب یہ فلم جمعے سے سنیما گھروں میں لگ رہی ہے۔
مارچ 2020 میں کرونا کی پہلی لہر کی وجہ سے سنیما بند ہوئے تو فلم 'انتظار' اسی دوران ریلیز ہونے والی تھی۔وبا کے بعد سنیما تو کھل گئے لیکن سکینہ سموں کی فلم کو ریلیز کے لیے پیش نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سنیما گھروں میں شائقین کی واپسی کا انتظار تھا۔
اب 19 اگست کو یہ فلم سنیما گھروں میں ڈسٹری بیوشن کلب کے بینر تلے ریلیز ہوگی۔ مبصرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ اس فلم کی ریلیز سے آزاد فلم میکرز کو، جنہیں انڈی فلم میکرز بھی کہا جاتا ہے، حوصلہ ملے گا تاکہ وہ بھی زندگی سے قریب تر کہانیوں کو پیش کر سکیں۔
فلم 'انتظار' کی کہانی ایک ایسے خاندان کے گرد گھومتی ہے جس میں بوڑھے والدین اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتے ہیں، جو ان کا خیال تو رکھتی ہے لیکن اس کی اپنی زندگی ان کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہوتی ہے۔
ایک واقعہ ان سب کو قریب لانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس کے انتظار میں انہیں جو تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں، اس فلم میں ان کی عکاسی کی گئی ہے۔
فلم کی کاسٹ میں ثمینہ احمد، خالد احمد، کیف غزنوی ، عدنان جعفر اور رضا علی عابد شامل ہیں جب کہ اس کی کہانی معروف ڈرامہ نگار بی گل نے تحریر کی ہے جن کے ڈرامے 'ڈر سی جاتی ہے سلہ' اور 'رقیب سے' پسند کیے گئے تھے۔
'انڈی فلمیں بنانے والے سوالات اٹھاتے ہیں، حوصلہ افزائی کرنا چاہیے'
سکینہ سموں کی بحیثیت ہدایت کارہ کی یہ پہلی فلم ہے، تاہم وہ ٹی وی اور فلموں سے تقریبا چار دہائیوں سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے فلم کو ریلیز کرنے سے قبل مختلف فلم فیسٹیولز میں بھیجا اور امریکہ میں ہونے والے 'ہارلم فلم فیسٹیول' میں تو خالد احمد نے بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ سکینہ سموں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں انڈی فلم میکرز کے لیے جگہ ہے۔ اگر انہیں لگتا ہے کہ نہیں ہے، تو وہ مختلف کہانیاں سنا کر جگہ بنا سکتے ہیں۔
ان کے بقول "شائقین سنیما میں اچھی کہانیاں دیکھنا چاہتے ہیں، جن سے نہ صرف وہ خود کو جوڑ سکیں بلکہ انہیں وہ اپنی کہانی لگے۔ یہ کام کمرشل فلم میکرز سے زیادہ بہتر انڈیپنڈنٹ فلم میکرز کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ خود معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور 'انتظار' بھی اسی ایک کوشش کا نام ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ان کی فلم کے ساتھ نہ کوئی چینل ہے، نہ ہی کوئی بڑا پروڈیوسر، پھر بھی آئی ایم جی سی (ڈسٹری بیوشن کلب) نے سپورٹ کے لیے فلم ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا، جو اس سے قبل سرمد کھوسٹ کی 'کملی' بھی ریلیز کرچکےہیں۔
اداکارہ کے مطابق پاکستان میں چینل اور بڑے پروڈکشن ہاؤسز سے الگ ہوکر بھی فلمیں بن سکتی ہیں، کیوں کہ اپنا وژن دکھانے سے زیادہ اہم کچھ نہیں، اب وقت اور حالات بدل رہے ہیں اور انڈی فلموں کی حوصلہ افزائی کرنے کا وقت آگیا ہے، آئی ایم جی سی (دسٹری بیوشن کلب) نے ہماری فلم کو اس کی کہانی کی وجہ سے ریلیز کے لیے منتخب کیا جو خوش آئند ہے۔
'انتظار' میں جہاں ثمینہ احمد اور خالد احمد جیسے سینئر اداکار اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں، وہیں تھیٹر اور ٹی وی کی مشہور اداکارہ کیف غزنوی اپنا فلم ڈیبیو کررہی ہیں۔
حال ہی میں 'ہم کہاں کے سچے تھے' میں اداکاری کرنے والی فنکارہ کیف غزنوی کا کہنا تھا کہ انہیں فلم ڈیبیو کرنے کے لیے 'انتظار' جیسے ہی پراجیکٹ کا انتظار تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں وہی پراجیکٹ پسند آتے ہیں جن کی کہانی کا کوئی مقصد ہو اور 'انتظار' کی تو کہانی ہی ان کے کردار کے گرد گھومتی ہے۔ اس لیے اس میں ڈوب کر کام کرنے میں انہیں بہت مزہ آیا۔
کیف غزنوی کا کہنا تھا کہ "ایک انڈی فلم کا حصہ ہونے پر مجھے بہت اچھا اس لیے بھی لگا کیوں کہ ایک تو اس کی کاسٹ بہت شاندار ہے۔ دوسرا یہ جس موضوع پر بنی ہےوہ بہت اثر انداز ہونے والا ہے۔ اس میں ایک بیٹی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنے حالات سے تنگ ہونے کے باوجود بوڑھے والدین کا خیال رکھتی ہے کیوں کہ ایسا کرنے والا اور کوئی نہیں ہے۔"
اداکارہ کے خیال میں اگر پاکستان میں حقیقت سے قریب کوئی کہانی سنانی ہو تو اس کے لیے صرف انڈی فلمیں ہیں کیوں کہ اس میں سیٹ سے زیادہ کرداروں پر توجہ دی جاتی ہے۔
ان کے بقول انہوں نے'انتظار ' کے سیٹ پر جو وقت گزارا ، اس سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ثمینہ احمد اور خالد احمد،جنہوں نے انڈسٹری کے اتار چڑھاؤ دیکھے، ان کے ساتھ وقت گزارنا ہی ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔
فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے معروف اداکار عدنان جعفر نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔
وہ مشہور امریکی ٹی وی سیریز 'ہوم لینڈ' میں ایک پاکستانی جنرل کا کردار ادا کرچکے ہیں جب کہ پاکستانی ڈراموں 'جیکسن ہائیٹس'، 'رسوائی' اور فلموں 'جلیبی'، اور 'پراجیکٹ غازی' میں ان کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔
عدنان جعفر کو کئی انڈی فلموں میں بھی کاسٹ کیا گیا اور اب وہ 'انتظار' میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدنان جعفر کا کہنا تھا کہ انڈی فلموں میں تھیٹر کے اداکاروں کو ڈوب کر کردار نبھانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ نسبتاََ کم فیس کی وجہ سے کاسٹ کیا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ان کے بقول "میرے خیال میں تو اس وقت پاکستان میں آزاد فلموں کا کوئی سرکٹ نہیں ہے۔ انڈی فلم کے پروڈیوسرز کے پاس کہانی تو اچھی ہوتی ہے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ کمرشل اداکاروں کو کاسٹ نہیں کرتے۔ چوں کہ پاکستان میں تھیٹر ایکٹر زیادہ پیسے چارج نہیں کرتا، اس لیے وہ مجھ جیسے اداکاروں کو ان اہم کرداروں میں موقع دیتے ہیں ۔"
عدنان جعفر نے 2016 میں فلم 'جیون ہاتھی' اور '2019 میں 'پنکی میم ساب' میں اپنی اداکاری کےجوہر دکھائے تھے۔ 'جیون ہاتھی' کا بجٹ تو کم نہ تھا لیکن اس کی کاسٹ میں عدنان کے ساتھ ساتھ نصیر الدین شاہ، حنا دل پذیر، نمرہ بچہ اور کرن تعبیر شامل تھیں جب کہ کم بجٹ کی 'پنکی میم ساب' آج بھی نیٹ فلکس پر موجود چند پاکستانی انڈی فلموں میں سے ایک ہے۔
عدنان جعفر کے خیال میں پاکستان میں جس طرح کمرشل فلموں کو وقفے وقفے سے ریلیز کیا جاتا ہے، ویسے ہی انڈی فلموں کو بھی موقع دینا چاہیے تاکہ ملک میں موجود بے پناہ ٹیلنٹ کو آگے آنے کا موقع ملے۔
اداکار نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ انڈی فلموں کے اداکار کمرشل فلموں میں کام نہیں کر سکتے۔ ، وہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں معاون اداکار کے طور پر کاسٹ کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے ان کی تھیٹر کی ٹریننگ کا عمل دخل ہے۔
'انتظار' کے ذریعے ڈیبیو کرنے والی کیف غزنوی تھیٹر پر اداکاری کی وجہ سے مشہور ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شائقین کےدل کو جو بات لگ جائے، اسے وہ عرصےتک یاد رکھتے ہیں اور اسی لیے پاکستان میں انڈی فلمز ہونا چاہیئں۔
کیف غزنوی کے مطابق انڈی فلم بنانے والوں کو ناظرین کے جذبات کے بارے میں پتا ہوتا ہے اسی لیے ان کی فلمیں وہی مخصوص لوگ دیکھتے ہیں، جنہیں اس قسم کی فلم کا تجربہ ہوتا ہے۔ اگر یہ فلم 'مخصوص شائقین ' کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس سے انڈی فلموں کو فائدہ ہوگا، جنتی زیادہ انڈی فلمیں بنیں گی، اتنے زیادہ لوگ اس سے آشنا ہوسکیں گے۔
انہیں نہ صرف 'انتظار ' سے امیدیں وابستہ ہیں بلکہ انہیں یقین ہے کہ اس فلم کو دیکھ کر بڑی بڑی فلمیں بنانے والے چھوٹے بجٹ کی فلموں کا رخ کریں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ 'انتظار' ایک چھوٹے بجٹ کی فلم ضرور ہے لیکن اس میں جو کچھ اسکرین پر دکھایا گیا ہے وہ کسی طرح بھی کسی بڑی فلم سے کم نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اس کو دیکھ کر چند پروڈیوسرز سوچنے لگیں کہ وہ بھی اس قسم کی فلم پر پیسہ لگا سکتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو اس سے پاکستان میں انڈی فلم میکرز کو وہ مدد مل جائے گی جس کی انہیں تلاش ہے۔