کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف ملکوں میں لاک ڈاؤن سے سب واقف ہیں لیکن ان لاکھوں افراد کے بارے میں بہت سے لوگ نہیں جانتے جو کئی مہینوں سے سمندر پر لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں بہتی ہوئی ان جیلوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اشیا کی نقل و حمل کرنے والے بحری جہازوں پر موجود ہیں۔ یہ جہاز ایک سے دوسری جگہ سامان پہنچارہے ہیں، لیکن عملے کو بندرگاہ پر اترنے اور گھر جانے کی اجازت نہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی جگہ خشکی سے کسی شخص کو بلانے سے جہاز پر بھی کرونا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ دوسری وجہ وہی کہ دنیا بھر میں سفر پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ خوراک، تیل اور دواؤں سمیت دنیا بھر میں اشیا کی 80 فیصد تجارت بحری جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی پریانکا خلیج میکسیکو میں موجود دبئی کے بحری جہاز کی فرسٹ آفیسر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دسمبر میں آئل ٹینکر پر آئی تھیں اور اپریل میں وطن واپس جانا تھا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے وہ اور ان کے 23 ساتھی جہاز پر پھنس گئے ہیں اور واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
پریانکا نے کہا کہ عملے کو مشکل زندگی کا سامنا ہے اور سب جسمانی اور ذہنی طور پر تھکن کا شکار ہیں۔ بیشتر لوگ سات مہینے سے جہاز پر ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں دس گیارہ مہینے ہوچکے ہیں۔
پریانکا نے کہا کہ امیگریشن حکام کام نہیں کررہے ہیں۔ بہت سی ائیرلائنز کام نہیں کررہیں۔ اس صورتحال میں زندگی جمود کا شکار ہوگئی ہے۔ عملہ صرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ وطن میں موجود اپنے اہلخانہ کے بارے میں بھی پریشان ہے۔
ہانگ کانگ کی بندرگاہ بے شمار بحری جہازوں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہاں سے مشرق اور مغرب کے راستے ملتے ہیں۔ ہانگ کانگ کی حکومت نے حال میں اعلان کیا کہ وہ بحری جہازوں کے عملے کی واپسی کے لیے تعاون کرے گی۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عملے کے کسی رکن کی گھر واپسی کے لیے کئی حکومتوں اور اداروں سے اجازت لینے کے علاوہ متبادل کارکن کے ویزا اور سفر کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے اور موجودہ حالات میں ایسا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔
پریانکا جس جہاز پر ہیں، وہ شپنگ کمپنی ویلن گروپ کا ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو فرینک کولز کو معاملے کی سنگینی کا پورا احساس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے سات ہزار کارکنوں میں سے بیشتر کے کنٹفریکٹ ختم ہوچکے ہیں۔ کی واپسی کا بندوبست کرنے کے لیے وہ ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔
فرینک کولز نے کہا کہ موجودہ بحران میں دنیا بھر میں ذہنی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس بحران سے پہلے بحری جہازوں کا 20 فیصد عملہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس بحران میں ان کی شرح کس قدر بڑھ سکتی ہے، وہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں بحری جہازوں پر لگ بھگ 2 لاکھ کارکن پھنسے ہوئے ہیں۔
فلپائن کے مرون لیگن ایک جہاز پر سیکنڈ آفیسر ہیں۔ انھوں نے سی این این کو بتایا کہ وہ گیارہ ماہ سے جہاز پر موجود ہیں۔ انھیں مارچ میں گھر واپس جانا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے سرحدیں بند ہوگئیں اور وہ جہاز پر پھنس گئے۔ وہ گھر واپس جانے اور اپنے تینوں بچوں کو گلے لگانے کے لیے بے چین ہیں۔
مرون نے کہا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ لوگ اپنے اہلخانہ سے دور رہ کر مشکل زندگی گزارتے ہیں اور عالمی معیشت کو چلانے کے لیے فرنٹ لائن ورکرز ہیں۔ پریانکا نے بھی زور دے کر کہا کہ بحری جہاز کو عملے کو لازمی خدمات دینے والے کارکن قرار دیا جانا چاہیے۔