رسائی کے لنکس

پرل ہاربر پر ہلاک ہونے والے امریکی سیلر کو بالاخر 81 برس بعد دفنایا جا رہا ہے


ہر برٹ جیکب سن
ہر برٹ جیکب سن

ایک 21 سالہ امریکی سیلر برٹ جیکب سن ان چار سو سے زیادہ ملاحوں اور میرینز میں شامل تھے جو دسمبر 1941 کو پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے دوران، یو ایس ایس اوکلاہوما پر مارے گئے تھے۔تابوت میں ان کی باقیات کو واشنگٹن کے نزدیک آرلنگٹن کےقومی قبرستان میں منگل کو سپرد خاک کیا جا رہا ہے۔

1941 میں پرل ہاربر پر جاپانی حملے نے امریکہ کو دوسری جنگ عظیم میں دھکیل دیا تھا۔

پرل ہاربر سے نکالی گئی باقیات میں سے جیکبسن کی شناخت کئی دہائیوں تک جاری رہی اور اب اسی سال بعد انہیں منگل کو دفنایا جائے گا۔

ہربرٹ "برٹ" جیکبسن کے خاندان کے ارکان نے اپنی ساری زندگی اس نوجوان کی تدفین میں شرکت کے لیے انتظار کیا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ کبھی نہیں ملے گا۔

جیکبسن کے ایک بھتیجے بریڈ میکڈونلڈ نے کہاکہ یہ ہمیشہ ایک غیر حل شدہ معمہ رہا ہے اور ہمیں نہیں معلوم تھا کہ برٹ کے ساتھ کیا ہوا، وہ کہاں ہے اور آخر کار اب اسے ایک نامعلوم سپاہی کے طور پر سپرد خاک کیا جا رہا ہے۔

آرلنگٹن کے قبرستان میں یہ تدفین اس شخص کی کہانی کا تازہ ترین باب ہو گی جو شمالی ایلی نوائے کے چھوٹے سے قصبے گریسلیک سے تعلق رکھتا تھا اور جس کے خاندان کو اس کی لاش نہیں ملی جسے وہ دفنا سکتے اور اس کو کوئی نام دے سکتے۔

یہ ایک طویل انتظار کی کہانی ہے

2015 میں، محکمہ دفاع نے باقیات کو دوبارہ نکالنے کے منصوبوں کا اعلان کی تھا۔

ہوائی میں ڈیفنس کی اکاؤنٹنگ ایجنسی میں فرانزک ماہر اور لیبارٹری مینیجر ڈیبرا پرنس زینی نے اس وقت ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، کہ اب ہمارے پاس ان باقیات کی فرانزک جانچ کرنے اور شناخت جاننے کی صلاحیت ہے۔

انہوں نے جیکبسن کے خاندان کے افراد کو نئی امید دی، جو ہر ناکام کوشش کے بعد مایوس ہو چکے تھے۔ انہوں نے اے پی کو بتایا کہ جیکبسن کی ماں ہر 7 دسمبر کو روتی تھیں، اس لیے کہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کا بیٹا کہاں ہے۔

2015 کے پروجیکٹ اوکلاہوما میں 355 مردوں کی شناخت کی گئی — جن میں جیکب سن بھی شامل تھے — وہ اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب ان کا جہاز تارپیڈو سے ٹکرا گیا تھا۔ ۔ نیوی پرسنل کمانڈ کے عوامی امور کے افسر جین ہیوز نے کہا کہ حملے کی 80 ویں برسی کے موقع پر، ان نامعلوم باقیات کو دوبارہ شناخت کیا گیا۔ انہوں نے جیکبسن کے رشتہ داروں سمیت اوکلاہوما میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ کام کیا ہے۔

جیکبسن کے خاندان کے لیے، کوئی بھی امید باقی نہیں رہی تھی وہ نہیں جانتے تھے کہ 7 دسمبر 1941 کو کیا ہوا تھا۔ جیکبسن کے جہاز کے ساتھیوں سے بات کرنے کے بعد وہ صرف اتنا جانتے تھے کہ وہ فوجیوں کو ساحل پہنچانے کی کئی گھنٹے طویل ڈیوٹی دینے کے بعد کام سے فارغ ہوا تھا۔

ان کے بھتیجے میک ڈونلڈ نے کہا کہ بحریہ سے تعلق رکھنے والے اس کے چچا کے ایک اچھے دوست نے کہا کہ اسے پورا یقین ہے کہ برٹ "اپنے بنکر میں سو رہا تھا اوروہ نہیں جانتا تھا کہ جنگ ہو رہی ہے۔

اب ایک آخری سوال تھا کہ برٹ کی لاش کا کیا ہوا؟

جواب 2019 میں آیا، جب میک ڈونلڈ نے کہا کہ خاندان کو مطلع کیا گیا تھا کہ برٹ کی باقیات کی شناخت کر لی گئی ہے۔ اس امید پر کہ تدفین اگلے سال ہو سکتی ہے، انہیں انتظار پر مجبور ہونا پڑا ، کیونکہ COVID-19 کی وبا کے باعث زیادہ تر اجتماعات میں تاخیر کی گئی جن میں جنازے بھی شامل تھے۔

میک نے کہا کہ ان انکل کو جن سے وہ کبھی نہیں ملا تھا آرلنگٹن میں سپرد خاک ہوتے دیکھنا خاص طور پر اہم ہے۔ میک ڈونلڈ نے اپنے دادا دادی، والدین اور دوسروں کے بارے میں کہاکہ "کاش وہ یہ دیکھ سکتے،"

میکڈونلڈ نے کہا کہ "جب برٹ بحریہ میں شامل ہوئے تو وہ ساؤتھ ڈکوٹا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے ملے جو یتیم تھا۔جب انہیں ویک اینڈ پاس ملاتو برٹ ا س یتیم شخص کو گھر لے گئے اور اپنی چھوٹی بہن سے ملوایا۔

آرول میکڈونلڈ اور نورما جیکبسن نے ایک دوسرے کو پسند کیا اور بعد میں شادی کی، اور میکڈونلڈ کو اس کہانی کا ایک خوبصورت انجام دے دیا۔

میکڈونلد نے کہا وہ یتیم میرے والد تھے، اور برٹ کی بہن میری ماں تھیں ۔ اور ’’میں برٹ کے احسان کی وجہ سےیہا ں ہوں۔‘‘

XS
SM
MD
LG