بلوچستان کے دارالحکومت کو ئٹہ میں پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لائے جانے والے قربانی کے جانوروں کی منڈیاں شہر کے مختلف علاقوں میں لگ گئی ہیں، لیکن ان منڈیوں میں خریدار کم اور بیوپاری زیادہ نظر آتے ہیں جو ان منڈیوں سے اپنی پسند کے جانور خریدار کر بیرون ملک اسمگل کر دیتے ہیں جبکہ بعض منڈیوں میں بھارت سے لائے گئے بیل بھی پہلی بار دیکھے گئے ہیں۔
مو یشیوں کی خر ید و فروخت کا کاروبار کرنے والے جہانگیر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ مارکیٹ کی پوزیشن کافی خراب ہے۔ قربانی کے جانور بہت زیادہ ہیں لیکن خریدار ہی نہیں ہیں کیونکہ یہاں جانوروں کی قیمتیں زیادہ ہیں اور عید کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھ رہی ہیں۔
اُن کے بقول قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے خر یدار منڈی کا رُخ کم ہی کرتے ہی۔ کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے ہم تاجر بھی کافی پریشان ہیں کیونکہ سارا سال ہم لوگ عید قربان سے پہلے آنے والے ان چند دنوں کا انتظار کرتے ہیں لیکن ان میں بھی کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں سے مویشی لاکر بلوچستان میں فروخت کرنے والے تاجر برات خان نے وی او اے کو بتایا کہ سندھ اور پنجاب سے لائے جانے والے جانوروں پر گاڑیوں کے کرایے اور چارے کی مد میں کافی اخراجات آتے ہیں اس لئے جانوروں کی قیمتیں ہرسال بڑھ رہی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ قربانی کے جانور صرف ایران نہیں بلکہ افغانستان بھی سمگل کئے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم نے کئی بار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو ایک ضلع سے دوسر ے تک بغیر پرمٹ (اجازت نامہ) کے لے جانے پر پابندی عائد جائے لیکن ابھی تک ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ مو یشیوں کو ایک سے دوسرے ضلع میں لے جانے پر پابندی لگانے سے بیرون ملک سمگلنگ اور قیمتیں دونوں کم ہوجائیں گی، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث بعض بیوپاری اس مر تبہ بھارت سے بھی لمبے سنگوں والے بیل لاچکے ہیں ۔ یہی بیوپاری اب یہ بیل یہاں سے ایران اور افغانستان سمگل کر رہے ہیں ۔ اُن کے بقول یہ ایک بہت بڑے مافیہ کا کاروبار ہے جس کا ہم چھوٹے کاروباری لوگ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
مو یشی منڈی میں بکر ا خر یدنے کےلئے آنے والے سر کاری ملازم محمد بخش کا کہنا ہے کہ بکری خر یدنے کا ارادہ تھا ۔ یہاں قیمتیں بہت زیادہ ہیں چھوٹے سے چھوٹے بکرے یا بکری کو ہاتھ لگاتا ہوں تو یہ لوگ پچاس ہزار ، پینتالیس ہزار ، کم سے کم پچیس ہزار مانگ رہے ہیں اتنے پیسے میں کہاں سے لاؤں ۔
محکمہ حیوانات کے ڈائریکٹر جنر ل غلام حُسین جعفر نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ اٹھارھویں تر میم کے بعد محکمہ حیوانات کے اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل ہوگئے۔ لیکن مو یشیوں کی تجارت اور دوسرے ممالک سے کاروبار کا اختیار صوبوں کو منتقل نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے صوبائی حکومت قربانی کے جانوروں کی سمگلنگ پر کو ئی پابندی عائد کر نے کا اختیار ہی نہیں رکھتی ۔ البتہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدوں پر تعینات وفاقی سیکورٹی اداروں کے اہلکار اگر مو یشیوں کی سمگلنگ کو روکنا چاہیں تو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منڈیوں میں پینے کا پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کو ئٹہ کے مئیر کی ذمہ داری ہے اور اُن سے یہ چیز یں فراہم کرنے کےلئے کہا گیا ہے ۔
مو یشیوں کے کاروبار سے وابستہ بیشتر تاجروں کا کہنا تھا کہ عید قربان کے موقع پر اس منڈی سے روزانہ ایک درجن سے زائد بڑے کنٹینر اور کو چز میں جانوروں کو لادکر ایران اور اور افغانستان غیر قانونی طریقے سے لے جا یا جارہا ہے جہاں سے مو یشی عراق اور سعودی عر ب بھی پہنچائے جاتے ہیں ۔
کو ئٹہ شہر کے مشرقی بائی پاس پر واقع اس مویشی منڈی میں تقر یباً دس ہزار سے زائد لوگ مو یشیوں کی خر ید وفروخت کے کاروبار سے وابستہ ہیں جن میں مویشیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے ، گاڑیوں سے اُتر نے اور چڑھانے ، مویشیوں کا چارہ اور دیگر چیزیں فروخت کرنے کا کاروبار کرنے والے لوگ شامل ہیں ۔ منڈی میں لائے جانے والے بکر ے اور دُنبے پر تیس، بیل پر پچاس اور اونٹ پر سو روپے ٹیکس وصول کیاجاتا ہے لیکن ٹیکس کی ادائیگی کے با وجو د منڈی میں انسانی ضروریات کی کو ئی سہولت موجود نہیں ۔ یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی ، اور لیٹرین وغیر ہ بھی نہیں ۔ اس منڈی میں کانگو وائرس کے خاتمے کےلئے اسپرے بھی نہیں کیا گیا ۔
بلوچستان میں رواں سا ل کے دوران کانگو وائرس سے 51 افراد متاثر ہوگئے ہیں جن میں سے اب تک تین افراد مو ت کے منہ میں جاچکے ہیں ۔ دیگر میں سے اٹھارہ افراد میں اس موذی مر ض کی تصدیق ہوئی ہے جن کا علاج ٹی بی سینیٹوریم میں کیاگیا۔