سبین محمود کے قتل کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں، ہما قریشی بھی شامل ہیں، جو پچھلے تین ہفتوں سے کلفٹن میں جاری روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی مظاہرے میں باقاعدگی سے شریک ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، سبین کا نعرہ یہ تھا کہ ’مسائل کو مکالمے کے ذریعے‘ حل کیا جانا چاہیئے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’جب تک سچائی سامنے لاکر سبین محمود کے قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا نہیں دیی جاتی، ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے‘۔
ہما قریشی کے بقول، ’یہ احتجاج صرف سبین کے قتل کے خلاف نہیں، بلکہ ہر اس پاکستانی کیلئے ہے جو حق اور سچ کیلئے آواز اٹھانا چاہتا ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ سماجی کارکن سبین محمود کا پیغام بھی یہی تھا کہ ’مسائل کو ڈائیلاگ کے ذریعے حل کیا جائے۔ دراصل، ہم اس پیغام کو آگے بڑھا رہے ہیں‘۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارے احتجاج کو آج 25واں روز ہے جسمیں روزانہ عام شہری بھی آکر اسکا حصہ بنتے ہیں‘ اور بینر اٹھا کر، ان کے پیغام کا ساتھ دیتے ہیں۔
سول سوسائٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ جب تک سبین محمود کے قاتلوں کو گرفتاری کے بعد قانون کے مطابق سزائیں نہیں دی جائیں گی، اس وقت تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
احتجاج میں شریک خاتون سماجی کارکن، انیس ہارون نے بتایا کہ ’ہم نے سبین کے قتل کے خلاف احتجاج کو ختم کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا‘۔
سبین کے قاتلوں کی گرفتاری پر انیس ہارون کا کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنےوالے ادارے روزانہ ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری کے اعلان کرتے ہیں، جبکہ اس سے قبل بھی کراچی کی کئی اہم شخصیات ہم سے جدا ہو چکی ہیں؛ جن کے اصل مجرم تاحال سامنے نہیں آ سکے‘۔
بقول اُن کے، ’جب تک سماجی خاتون سبین محمود کے قاتلوں کو گرفتار کرکے نھیں قانون کے مطابق سزائیں نہیں دی جائیں گی سول سوسائٹی کے اراکین روزانہ کی بنیاد پر ہونےوالا اپنا احتجاج کرتے رہیں گے‘۔
کراچی کی نامور خاتون سماجی کارکن اور غیر سرکاری تنظیم ’ٹی ٹو ایف‘ کی ڈائریکٹر سبین محمود کو 24 اپریل کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔