رسائی کے لنکس

مسز اینڈ مسٹر شمیم: 'اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو گی کہ اپنا کام اپنے ہی لوگ نہ دیکھ سکیں'


پاکستان میں اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی) پلیٹ فارمز کی کمی کی وجہ سے پاکستانی فلم ساز یا تو ویب سیریز کی طرف نہیں جاتے یا پھر بیرونِ ملک اسٹریمنگ سروسز کے لیے ویب سیریز بناتے ہیں۔

جمعے کو پاکستانی اداکارہ صبا قمر اور اداکار نعمان اعجاز کی ویب سیریز 'مسز اینڈ مسٹر شمیم' بھارتی اسٹریمنگ سروس 'زی فائیو' پر ریلیز ہو رہی ہے۔ 20 اقساط پر مشتمل یہ ایک ایسی ویب سیریز ہے جس کی کہانی دو دوستوں کے گرد گھومتی ہے جس میں عورت کو مضبوط اور مرد کو کمزور دکھایا گیا ہے۔

ویب سیریز میں نعمان اعجاز نے 'شمیم' نامی شخص کا کردار ادا کیا ہے جو مردوں سے زیادہ عورتوں میں رہنا پسند کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کی عادات اور انداز بھی عورتوں جیسے ہی ہوتے ہے، جب کہ اداکارہ صبا قمر نے اس کی دوست 'اُمینہ' کا کردار نبھایا ہے۔ جب امینہ مشکل میں گھرجاتی ہیں تو شمیم ان سے شادی کر لیتا ہے اور سیریز کی کہانی ان کی زندگیوں میں آنے والے اتار چڑہاؤ کے گرد گھومتی ہے۔

'مسز اینڈ مسٹر شمیم' کی ہدایت کاشف نثار نے دی ہے جب کہ اس کی کہانی مصنف ساجی گل نے لکھی ہے اور اس ویب سیریز کو 'زی فائیو' پر نشر کیا جا رہا ہے۔

اس سے قبل سن 2019 میں یہ پلیٹ فار م عاصم عباسی کی ویب سیریز 'چڑیلز 'اور مہرین جبار کی 'ایک جھوٹی لو اسٹوری' بھی ریلیز کر چکا ہے جسے پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا گیا۔

لیکن 2021 میں ہدایت کار حسیب حسن کی پاکستان اور بھارت کی دوستی پر مبنی ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار' کی ریلیز کے وقت 'زی فائیو' پرجو پابندی لگی اس کے بعد سے یہ پلیٹ فارم پاکستان میں دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے ناظرین 'دھوپ کی دیوار' اور 'قاتل حسیناؤں کے نام' دونوں ویب سیریز دیکھنے سے قاصر رہے۔

'سیریز کی کہانی صرف ڈرائنگ روم، بیڈروم اور کچن تک محدود نہیں'

سیریز کے پروڈیوسر اور ہدایت کار کاشف نثار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ یہ سیریز پاکستان میں دکھائی جائے لیکن فی الحال اس کے آثار کم ہی نظر آ رہے ہیں۔

ان کے مطابق اس سیریز کی کہانی بھی نئی ہے جب کہ اسے پیش کرنے کا انداز بھی الگ ہے، اگر سیریز اسکرین پر آجاتی تو اس سے کئی فرسودہ روایات کو ختم کرنے کا موقع ملتا۔

کاشف نثار کے بقول "جب ہم نے مسز اینڈ مسٹر شمیم کی کہانی کو پاکستانی میڈیا ہاؤسز کو پچ کیا تو کسی نے اسے اپنانے کی حامی نہ بھری اورجب 'زی فائیو' کی شلجا کیجریوال نے اس کی کہانی سنی تو انہیں یہ بہت پسند آئی جس کے بعد ہم نے اسےا سکرین پلے کی شکل دی۔"

کاشف نثار نے بتایا کہ ناظرین جب بھی اس سیریز کو دیکھیں گے تو انہیں اندازہ ہوگا کہ یہ صرف ڈرائنگ روم، بیڈروم، اور کچن تک محدود نہیں بلکہ اس میں کہانی گھر سے باہر بھی گئی ہے۔

ان کے مطابق زی فائیو نے جب یہ پراجیکٹ فائنل کیا تھا تو اس وقت یہ پاکستان میں فعال تھی لیکن بعد میں زی فائیو کی بندش نے پوری ٹیم کو افسردہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ "تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اپنا کام اپنے ہی لوگ نہیں دیکھ سکیں گے اس کا احساس اب زیادہ اس لیے ہو رہا ہے جب لوگ پرومو اور او ایس ٹی کے آنے کے بعد پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے دیکھیں گے؟ جس کا میرے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔"

کون نہیں چاہے گا کہ اس کی محنت کو اس کے چاہنے والے نہ دیکھیں: صبا قمر

'مسز اینڈ مسٹر شمیم' میں مرکزی کردار اداکرنے والی اداکارہ صبا قمر سمجھتی ہیں کہ زی فائیو کی اس سیریز سے پاکستان کی وہ کہانیاں سامنے لانے میں مدد ملتی جو لوگوں کے ذہنوں میں تو ہیں لیکن وہ سامنے نہیں لانا چاہتے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صبا قمر نے کہا کہ انہیں بے حد خوشی ہوتی اگر یہ سیریز وہ لوگ دیکھتے جن کی یہ کہانی ہے۔"

صبا قمر کے خیال میں اس ویب سیریز کے دنیا بھر میں چلنے سے پاکستان کے ان لوگوں کا فائدہ ہوگا جنہیں ایسی بہت سی کہانیاں معلوم تو ہیں لیکن وہ ٹی وی پر نہیں دکھائی جاسکتیں۔

'جعلی طریقے سے لوگ دیکھ تو لیں گے لیکن اس کا نقصان ہمیں ہی ہو گا'

ویب سیریز کے مصنف ساجی گل کا کہنا ہے کہ 'زی فائیو' کے پاکستان میں آنے سے اگر فائدہ ہو رہا تھا تو اب نہ آنے سے نقصان ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ کیا بدقسمتی ہوگی کہ 'مسز اینڈ مسٹر شمیم' جہاں کی کہانی ہے اسے وہیں کے لوگ نہیں دیکھ سکیں گے۔اگر ویب سیریز دوسرے طریقوں سے لوگوں نے دیکھ بھی لی تو اس سےنقصان ان لوگوں کا ہوگا جو سمجھ رہے تھے کہ یہ 'زی فائیو' کے آنے سے پاکستان میں ویب سیریز بننا شروع ہوجائیں گی۔

ساجی گل کے مطابق پاکستان میں 'زی فائیو' کے آنے سے ملک میں بزنس آرہا تھا۔لیکن اب جب لوگ جائز طریقے سے ویب سیریز نہیں دیکھ پائیں گے تو وہ کوئی دوسرا طریقہ نکالیں گے جس کے بعد کوئی بھی انٹرنیشنل پلیٹ فارم پاکستان آنے سے پہلے دو مرتبہ سوچے گا۔

'میچور کہانیوں کا عادی بننے کے لیے پہلے دو چار میچور کہانیاں دکھانا پڑیں گی'

'ڈر سی جاتی ہے صلہ'، 'انکار'، 'رقیب سے' اور 'دل ناامید تو نہیں' جیسے ڈرامے بنانے والے ہدایت کار کاشف نثارسمجھتے ہیں کہ ناظرین کی ذہانت کو کم تر سمجھنے کی وجہ سے پاکستان میں لوگ اچھے ڈرامے نہیں بنارہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈرامہ نگار منو بھائی کہتے تھے کہ اگر شہر کے کتے کچلہ کھا کے مر جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں کچلہ پسند ہے بلکہ یہ ہے کہ انہیں کچلہ کھانے کو دیا گیا۔ اسی طرح ہم جب عام لوگوں کی ذہانت پر شک کرتے ہیں تو پھر اسی طرح کے ڈرامے بنانے لگ جاتے ہیں جیسے کہ بن رہے ہیں۔معاشرے میں جب ایک طرح کے لوگ نہیں ہوتے تو ایک طرح کے ڈرامے کیوں بنائے جاتے ہیں۔

کاشف نثار نے یہ بھی کہا کہ ناظرین کی ذہانت کو چیلنچ کرنے کے لیے میچور کہانیوں کا بننا ضروری ہے۔ دو چار میچور کہانیوں کے بعد لوگوں کو وہ اچھی لگنے لگ جائیں گی لیکن جب انہیں یہ کہانیاں دکھائیں گے نہیں تو پھر وہ اس کے عادی کیسے ہوں گے۔

مصنف ساجی گل کا بھی یہی کہنا تھا کہ بیرونِ ملک سے پڑھ کر آنے والے فلم ساز گلیمر دکھانے کے لیے کہانیوں میں کردار بھی امیر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم نے کوشش کی ہے کہ اس کہانی میں اصل مڈل کلاس کو سامنے لائیں تاکہ اس کہانی کو انڈین پلیٹ فارم پر بھی پاکستانی کہانی کہا جائے۔

ساجی گل کے مطابق پہلی بار عالمی سطح کا کام کرنے کا موقع ملا تھا اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پاکستانی فلم ساز دنیا میں پیچھے رہ جائیں گے۔اگر پاکستان میں انٹرنیشنل پلیٹ فا رم کی بندش کے فیصلے پر نظر ثانی نہ کی گئی تو مستقبل میں کوئی بھی انٹرنیشنل پلیٹ فارم پاکستان آنے سے کترائے گا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG