روس کے صدر ولادی میر پوٹن سرکاری دورے پر بھارت گئے ہیں جہاں وہ بھارتی وزیرِ اعظم سمیت دیگر اعلٰی حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ مختلف معاہدوں پر دستخط کریں گے۔
خطے کی صورتِ حال اور عالمی تناظر میں روسی صدر کا دورۂ بھارت نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
ولادی میر پوٹن کا کرونا وبا کے بعد یہ دوسرا غیر ملکی دورہ ہے۔ اس سے قبل انہوں نے جولائی میں جنیوا کا دورہ کیا تھا۔ جہاں انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی۔
خیال رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کے زمانے سے ہی دوستانہ تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں میں تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے میں ان رشتوں پر کسی حد تک اثر پڑا ہے۔
مودی پوٹن ملاقات سے قبل دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ و دفاع کے درمیان ٹو پلس ٹو مذاکرات ہوئے۔
بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے ٹو پلس ٹو مذاکرات کے آغاز پر کہا کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں بھارت اور روس کے درمیان اشتراک قابلِ ذکر اور مضبوط ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اس بات کی نشان دہی کرنا چاہوں گا کہ ہم باہمی تعلقات اور تعاون سے مطمئن ہیں۔
ان کے مطابق وزیرِ اعظم مودی اور صدر پوٹن کے درمیان دو برس کے بعد سربراہ ملاقات ہو رہی ہے۔ ہم اس ملاقات سے انتہائی اہم نتائج کی توقع کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف کے ساتھ مذاکرات کیے۔
ادھر بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے روسی ہم منصب جنرل سرگئی شویئگو کے ساتھ مذاکرات کیے۔
ذرائع کے مطابق دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اتر پردیش کے امیٹھی ضلع میں پانچ لاکھ اے کے۔203 رائفل بنانے کے 5100 کروڑ روپے کے معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔
ذرائع کے مطابق دونوں وزرا نے ملٹری ٹیکنالوجی تعاون معاہدہ 2031-2021 کی تجدید بھی کی۔
مذاکرات کے بعد راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت روس کی جانب سے ملنے والی حمایت کی ستائش کرتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون سے خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی آئے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان چھوٹے ہتھیاروں اور دفاعی تعاون سے متعلق سمجھوتوں اور معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔
دفاع، تجارت، سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے متوقع
روسی صدر کے وزیرِ اعظم مودی سے ملاقات کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون میں اضافے کی غرض سے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں تاریخی رشتے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال میں اس دورے کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع و خارجہ کے درمیان ہونے والے ٹو پلس ٹو مذاکرات کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل بھارت نے ایسے مذاکرات صرف امریکہ کے ساتھ کیے تھے۔
ان کے بقول دونوں ملکوں کے رہنماؤں نریندر مودی اور ولادی میر پوٹن کے درمیان بہت قریبی تعلقات ہیں اور دونوں اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔
'افغانستان پر بھی بات ہو گی'
اسد مرزا کے بقول دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں افغانستان کی صورتِ حال پر بھی گفتگو ہو گی۔ دونوں ملک چاہتے ہیں کہ وہاں ایک جامع حکومت قائم ہو جو کہ وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکے۔
ان کے بقول چار ملکوں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے گروپ کواڈ میں بھارت کی شمولیت پر بھی گفتگو کا امکان ہے۔ کواڈ کی وجہ سے روس بھارت سے خوش نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بھارت کو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے علاقے کی سیکیورٹی و دفاعی صورتِ حال پر منفی اثر مرتب ہو۔
خیال رہے کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اس پر اپنی ناراضی ظاہر کی تھی۔
ادھر کواڈ کے ارکان کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر فوجی اتحاد ہے اور یہ کسی مخصوص ملک کے خلاف قائم نہیں کیا گیا ہے۔
بھارت روسی اسلحے کا بڑا خریدار
اسد مرزا کے مطابق دونوں رہنما باہمی تجارت کے فروغ پر بھی غور کریں گے۔ دونوں میں دفاعی تجارت غیر فوجی تجارت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ بھارت سوویت روس کے دور سے ہی روس سے ہتھیار خریدتا آیا ہے۔ بھارت نے امریکہ سے کم ہتھیار خریدے ہیں، زیادہ تر ہتھیار روس سے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 برسوں میں بھارت نے روس سے 70 ارب ڈالر کے ہتھیار اور دفاعی ساز و سامان خریدا ہے۔ 2019-2018 کے درمیان ہی بھارت نے روس سے 15 ارب ڈالر کے پارٹس خریدے۔ جب کہ امریکہ سے 15 برسوں کے درمیان صرف 18 ارب ڈالر کے پارٹس یا دیگر آلات خریدے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امید کی جا رہی ہے کہ فریقین کے درمیان روس کے تیار کردہ نئے ہتھیاروں کی خریداری پر بھی بات چیت ہو گی۔ اسی ماہ روس کے ایس ۔400 میزائل نظام کی سپلائی بھارت کو شروع ہو جائے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ روس بھارت کو جدید ترین ٹیکنالوجی والے ایس۔500 اور 550 میزائل نظام بھی فروخت کر سکتا ہے۔
ان کے خیال میں اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارت اس زمرے کے ہتھیار رکھنے والے صفِ اول کے ملکوں میں شامل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بھارت روس سے مزید دیگر ہتھیار بھی خرید رہا ہے۔
'ایس-400 میزائلوں کی خریداری پر امریکہ خوش نہیں ہے'
انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے روس سے ایس۔ 400 میزائل نظام کی خریداری سے امریکہ خوش نہیں ہے۔ ترکی نے جب اس نظام کو روس سے خریدا تھا تو امریکہ نے اپنے قانون ’کاؤنٹرنگ امیرکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنس ایکٹ‘ (کاٹسا) کے تحت اس پر ایف۔35 فائٹر جیٹ پروگرام خریدنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اس سے قبل جب امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے جولائی کے آخر میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھا تو اس میزائل سسٹم کی خریداری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے نئی دہلی کے 'اخبار ٹائمز آف انڈیا' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس میزائل نظام کی خرید پر امریکہ نے بھارت کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کا اپنا قانون ہے جو نافذ کیا جاتا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں اپنے طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ ہم دیکھیں گے کہ آئندہ مہینوں میں صورتِ حال کیا شکل اختیار کرتی ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 23 نومبر کو اپنی پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ امریکہ نے اپنے تمام حلیفوں اور شراکت داروں سے کہا ہے کہ وہ روس کے ایس۔400 میزائل نظام کو فراموش کر دیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں بھارت کو پابندی سے چھوٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
یاد رہے اکتوبر 2018 میں بھارت اور روس کے درمیان پانچ ارب ڈالر کے ایس ۔400 میزائل نظام کے سودے پر دستخط ہوئے تھے۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ امریکہ نے انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ساتھ مل کر چار ملکوں کے گروپ کواڈ کی تشکیل کی ہے۔ انڈو پیسفک میں اس کے لیے بھارت کی حمایت کی بہت اہمیت ہے اس لیے وہ اس معاملے کو نظرانداز کر رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق اگرچہ بھارت اور روس میں تاریخی رشتے ہیں تاہم بعض امور پر دونوں میں اختلافات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ، افغانستان، چین اور پاکستان سے تعلقات کے سلسلے میں۔
مبصرین کا کہنا ہے بھارت اور روس کے درمیان افغانستان کے سلسلے میں اس وقت اختلافات پیدا ہوئے جب روس نے فیصلہ کیا کہ داعش کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے طالبان سے روابط ضروری ہیں۔ اس کے بعد ماسکو اور اسلام آباد ایک دوسرے کے قریب آئے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے رشتے بھی روس کے ساتھ تعلقات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ تاہم اس کی جانب سے اس سلسلے میں کھل کر اظہارِ خیال نہیں کیا گیا ہے۔