بحیرہ اسود کی بندرگاہ، سوچی پر اتوار کے روز تلاش اور بچاؤ کے کام سے وابستہ ہزاروں روسی کارکنان، جن میں بحریہ کے 100 سے زیادہ غوطہ خور بھی شامل تھے، تلاش کا کام جاری رکھا، جس ہوائی حادثے میں جہاز میں سوار سارے 92 افراد ہلاک ہوئے۔
ایک فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ پرواز کو پیش آنے والے حادثے میں کسی کے بچنے کا امکان باقی نہیں رہا، جس میں بین الاقوامی طور پر مشہور، الیگزینڈروف انسیمبل کا طائفہ شامل تھا، جس کا تعلق روسی مسلح افواج سے تھا۔
صدر ولادیمیر پیوٹن نے پیر کو ملک بھر میں سوگ کا اعلان کیا ہے، ایسے میں جب تلاش پر مامور عملہ رات کو بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے، تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے آیا پرواز کے دو منٹ بعد 'ٹی یو 154' جیٹ طیارہ کیوں گر کر تباہ ہوا۔
پیوٹن کے الفاظ میں ''ہم تفصیلی تفتیش کریں گے تاکہ اسباب کا پتا لگ سکے، اور ہلاک شدگان کے اہل خانہ کی مدد کے لیے تمام اقدام کیے جائیں گے''۔
اس سے قبل آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بحیرہ اسود میں گر کر تباہ ہونے والے روسی فوجی طیارے میں 94 افراد سوار تھے، جن میں 'الیگزینڈر انسیمبل' کے 60 مرد ارکان شامل تھے، جنھیں بین الاقوامی طور پر 'ریڈ آرمی کوئر' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سوگوار اتوار کے روز ماسکو سےباہر واقع 'الگزینڈر انسیمبل' کے صدر دفتر میں جمع ہوئے۔
روسی افواج کا یہ سرکاری طائفہ شام میں واقع ایک فضائی اڈے کی طرف پرواز پر تھا، تاکہ نیو ایئر منانے والی فوجوں کی خوشیوں میں شریک ہوا جا سکے۔
ریڈ آرمی کوئر کے سربراہ، جنرل وکٹر الیزیف کے بقول، ''آج ہم اس المناک صدمے سے دوچار ہیں، جن میں الیگزینڈر کوئر اور ڈانسر (ساتھی) ہم سے بچھڑ گئے''۔
اس طائفے کی بنیاد سنہ 1929 میں کمپوزر، الیگزینڈر وی الیگزیندروف نے رکھی تھی، جس کا تعلق سوویت دور سے تھا۔ آج کل یہ اورکیسٹرا، رقص اور طائفے کے ارکان پر مشتمل ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' نے خبر دی ہے کہ الیگزیندروف کے پڑ پوتے، یوگنی نے روسی خبروں کی ویب سائٹ کو بتایا ہے کہ ''انسیمبل کے بہترین ارکان ہلاک ہوگئے ہیں''۔
اس سے قبل موصولہ خبر کے مطابق، طیارے نے ساحلی شہر سوچی سے اڑان بھری تھی، اور چند منٹوں بعد ہی ریڈار سے غائب ہو گیا۔ TU-154 ساختہ تین انجن والا یہ جہاز شام کے شہر لاذقیہ کے لیے اپنی معمول کی پرواز پر روانہ ہوا تھا۔
طیارے پر 84 مسافر اور عملے کے آٹھ ارکان سوار تھے۔ جہاز کو پیش آنے والے واقعے کی تاحال وجوہات اور تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔
ہنگامی امداد کے کارکنوں کو بحیرہ اسود میں ساحل سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور طیارے کی کچھ باقیات ملی ہیں جب کہ ایک لاش برآمد ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔
وزارت دفاع کے بیان کے مطابق جہاز پر روسی فوجیوں کے علاوہ فوج کے میوزک بینڈ کے 64 ارکان اور نو روسی صحافی سوار تھے جو شام میں ایک فضائی اڈے پر سال نو کی تقریبات میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔
روس کی پارلیمان کے ایوان بالا کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ وکٹر اوزروف نے روسی خبر رساں ایجنسیز کو بتایا واقعے میں دہشت گردی کا امکان نہیں اور ہو سکتا ہے طیارہ تکنیکی خرابی یا عملے کے رکن کی غلطی کی وجہ سے تباہ ہوا ہو۔
ان کے بقول یہ طیارہ فوج کے زیر انتظام تھا لہذا اس میں دہشت گردی کا امکان نہیں ہو سکتا۔
روس نے TU-154 طیارے پہلے پہل 1960ء کی دہائی میں تیار کرنا شروع کیے تھے۔ تباہ ہونے والے طیارے کے بارے میں وزارت دفاع نے بتایا کہ یہ 1983ء میں تیار ہوا تھا اور اسے 2014ء میں مرمت و بحالی کے عمل سے گزارا گیا تھا۔
اپریل 2010ء میں اسی ساخت کا ایک طیارہ پولینڈ کے صدر لیف کازنسکی اور دیگر 95 افراد کو لے کر ایک ہوائی اڈے پر اترتے ہوئے تباہ ہو گیا اور اس پر سوار تمام افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روسی خبر رساں ایجنسیوں کو بتایا تھا کہ صدر ولادیمر پوتن کو اس صورتحال اور تلاش کی کارروائیوں کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔