روس نے پیر کے روز امریکہ سے مطالبہ کیا کہ گذشتہ سال جن دو عمارتوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے، اُنھیں روس کو واپس کیا جائے، جس سے قبل امریکی خفیہ ادارے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امریکہ کی جانب سے نیو یارک اور میری لینڈ کی مشرقی ریاستوں میں واقع اس جائداد کو بند کرنے کے اقدام کو ’’دِن کی روشنی میں کی جانے والی ڈکیتی‘‘ قرار دیا ہے۔
اُس وقت امریکی صدر براک اوباما نے جاسوسی کے الزام پر دسمبر میں اِن عمارتوں کو بند کرنے اور 35 روسی سفارت کاروں کی ملک بدری کےاحکامات دیے تھے، جس کے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ بعد وہ عہدہ ٴصدارت سے دستبردار ہوئے، جسے انتخابات میں روسی مداخلت پر کیا جانے والا اقدام قرار دیا گیا، جس دعوے کو روس مسترد کرتا ہے۔
روس نے کسی جوابی اقدام سے احتراز کیا ہے۔ لیکن، گذشتہ ہفتے لاوروف نے کہا کہ ’’اگر امریکہ اس معاملے کو حل کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا تو ہم جوابی قدم اٹھائیں گے‘‘، ممکنہ طور پر اُس گھر اور اسٹوریج کی تنصیب کو بند کیا جائے گا، جو ماسکو میں امریکی سفارت خانے کے عملے کے زیر استعمال ہے۔
واشنگٹن میں سیاسی قیاس آرائی گردش کرتی رہی تھیں کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد جنوری کے اواخر میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ فوری طور پر یہ عمارتیں روس کے حوالے کر دیں گے، لیکن اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔