رسائی کے لنکس

امریکی سیاست میں ماسکو کی مداخلت پر روسی شہری کیا کہتے ہیں؟


ماسکو کے ڈاؤن ٹاؤن میں یوم مئی کا مظاہرہ۔ فائل فوٹو
ماسکو کے ڈاؤن ٹاؤن میں یوم مئی کا مظاہرہ۔ فائل فوٹو

اب جب کہ امریکہ کے خصوصی کونسل رابرٹ ملر 2016کے صدارتی انتخابات میں روس کے مبینہ کردار پر تفتیش کے اپنے اخذ کردہ نتائج کی تفصیلات پر ایک رپورٹ تیار کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، اس کے امکانی طور پر پریشان کن نتائج سے نمٹنے کے طریقوں سے متعلق امریکہ پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کریملن دخل اندازی کے الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کی اندرونی سیاسی رسہ کشی کا ایک شکار بن گیا ہے۔

روس کے شہری، ملر کے کام اور دوسرے ملکوں کے معاملات میں مجموعی طور پر اپنے ملک کے عمل دخل کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ اس کے علاوہ خارجہ پالیسی پر ان کی رائے کون ترتیب دیتا ہے اور کیا وہ مغرب کے ساتھ تنازعوں میں اپنے ملک کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔ وائس آف امریکہ نے اس کا جائزہ لیا ہے۔

رابرٹ ملر 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے بارے میں چھان بین کر رہے ہیں۔ امریکی ان کے چہرے اور ان کے کام کی نوعیت سے قدرے مانوس ہے۔ لیکن عام روسی ان کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ جب ان کا فوٹو دکھا کر کچھ روسی شہریوں سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس شخص کو پہچانتے ہیں تو کئی روسیوں کو ان کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں تھا، لیکن انہوں نے امریکی انتخابات میں ماسکو کی مداخلت یا بیرون ملک کسی دوسری نقصان دہ سرگرمی کی ترديد کرتے ہوئے اپنی حکومت کے موقف کی بھر پور حمایت کی۔

ایک روسی شہری کا کہنا تھا کہ ہم ایسا کیوں کریں گے۔ ہمیں ایسی کسی مداخلت کی ضرورت نہیں تھی اور ایسا کبھی نہیں ہوا۔

ایک اور شخص نے کہا ۔’ روس کو نہ تو امریکی لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہونے کی خواہش تھی اور نہ ہی اس کے پاس اس کے لیے وسائل تھے۔

روسی ماہرین کو اپنے ہم وطنوں کے اس رد عمل پر کوئی تعجب نہیں ہے۔ لیواڈا سنٹر کے ریسرچر ڈینس وولکوف کہتے ہیں۔’ اکثریت آپ کو بتائے گی کہ آپ کی ہر بات کی ہر صورت ترديد کرنا ہے۔ ہم معلومات کی جنگ کی حالت میں ہیں اور یہ درست حربہ ہے۔‘

وولکوف دس سال سے بھی زیادہ عرصے سے روس میں رائے عامہ کے بارے میں جائزے ترتیب دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ روایتی طور پر سروے رپورٹوں کے آغاز میں روسی بیرون ملک ماسکو کے بد اندیش رویے کے بارے میں سوالات کے جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے صرف یہ کہتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ہو سکتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ بعد میں مزید نجی محفلوں میں، اگرچہ وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہاں وہ ہم ہو سکتے ہیں جنہوں نے مداخلت کی، لیکن اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اسے کہا جاتا ہے، غلط یا صحیح، یہ میرا ملک ہے اور مجھے اس کا ساتھ دینا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ایسے جوابات دیتے ہوئے لوگ قدرے غیر شعوری طور پر ریاست کے کنٹرول کے ٹی وی پر بیرون ملک روس کی مداخلت کی ہمیشہ بدلتی ہوئی تاویل و تشریح کو دہراتے ہیں۔

وولکوف کہتے ہیں کہ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ہم روسی اس وقت تک کرائمیا میں روسی فوجیوں کی موجودگی کے خیال کو مسترد کر رہے تھے جب تک پوٹن نے یہ نہیں کہا کہ، جی ہاں وہ ہمارے فوجی تھے۔ لیکن اس سے قبل انہوں نے اس سے انکار کیا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سے روسی عالمی واقعات کے بارے میں حکومت کی وضاحت قبول کرنے کا رجحان اپنے ملک کی کھوئی ہوئی شان و شوکت پر کچھ سماجی اور تاریخی بغض کی وجہ سے بھی رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ کسی ایسے ملک کے لیے تقریباً ایک قسم کا حسد ہے جو کہ نمبر ون ہے۔ کیوں کہ ایک برابری کی سطح تھی اور تیس سال قبل وہ ختم ہو گئی ۔

روسی انٹر نیشنل امور کی کونسل کے سربراہ اینڈر کورٹونوف، مسٹر والکوف سے اختلاف کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے معاملات میں حکومت کی حمایت کر کے روسی محض دنیا میں اپنے نئے مقام کی توثیق چاہتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ایک اوسط امریکی کے لیے یہ توجہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ روس اہمیت رکھتا ہے اور آپ اس کی اہمیت ختم نہیں کر سکتے۔

لیکن جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ روسی حتمی سچ کے لیے اس کے مرکزی مقام کو تسلیم کرنے والے واحد لوگ نہیں ہیں۔

عالمی امور پر شکاگو کی گلوبل کونسل اور ماسکو کے لیواڈا سینٹر کے متعدد مربوط جائزوں میں ماہرین سماجیات نے امریکیوں اور روسیوں سے خارجہ پالیسی پر متعدد سوال پوچھے۔ تناتج نے انہیں قدرے حیران کر دیا۔

وولکوف کہتے ہیں۔ ’اس نے مجھے قدرے محظوظ بھی کیا۔ جوابات ایک دوسرے کے بالکل مماثل تھے۔ روسیوں نے کہا کہ وہ ہم نہیں وہ ہیں جو ہمارے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ اور یہ ہی بات امریکیوں نے روسیوں کے لیے کہی‘۔

اور اس تمام کا لب لباب یہ ہی ہے کہ، غلط ہے یا صحیح، یہ میرا ملک ہے میں اس کے ساتھ ہوں۔

XS
SM
MD
LG