رسائی کے لنکس

طالبان نے افغانستان کے خلاف روس کے دہشت گردی کے الزامات مسترد کر دیے


افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی (فائل فوٹو)
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی (فائل فوٹو)

افغانستان کے حکمراں اسلام پسند طالبان کے اعلیٰ سفارت کار نے روس کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ داعش کے ہزاروں عسکریت پسند شمالی افغانستان میں جمع ہوگئے ہیں جو وسطی ایشیائی خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔

طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بدھ کو کابل میں ملک سے سوویت فوج کے انخلا کی 34 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں ایک ٹیلی ویژن تقریر میں سوال اٹھایا کہ کس طرح ہزاروں لوگ ایک ہی جگہ پر جمع ہوئے ہیں اور پھر بھی کوئی انہیں نہ دیکھ سکا اور نہ ہی پہچان سکا؟‘‘

متقی نے کہا کہ "ہم سب کو خوش آمدید کہتے ہیں، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس کا حل بتائیں اور اگر انہیں کوئی تشویش ہے تو ہم سے بات کریں۔ لیکن کئی دہائیوں کی جنگ سے دوچاراس قوم کے کو بدنام کرنے اوراس کے مصائب میں اضافہ کرنے والے بے بنیاد الزامات کا خاتمہ ہونا چاہیے،''

طالبان کا یہ ردعمل ایک روز بعد سامنے آیا ہے جب روسی فوج کے ایک اعلیٰ جنرل نے کہا تھا کہ "شدت پسند گروہوں" نے افغانستان میں "پاؤں جما لیے ہیں" اور خطے میں استحکام کے لیے "سب سے بڑا خطرہ" بن گئے ہیں۔

کابل میں روسی سفارت خانے کے باہر کا منظر
کابل میں روسی سفارت خانے کے باہر کا منظر

روس کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف آف کلیکٹیو سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن، کرنل جنرل اناتولی سیدوروف نے القاعدہ اور داعش کی افغان شاخ، جسے اسلامک اسٹیٹ خراسان، یا آئی ایس-کے کے نام سے جانا جاتا ہے، کو ان گروپوں میں "سب سے خطرناک" قرار دیا۔

روسی سرکاری میڈیا نے سیدوروف کے حوالے سے بتایا کہ "اسلامک اسٹیٹ کی افغان شاخ، ولایت خراسان (IS-K) کے ارکان کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ کر تقریباً 6,500 ہو گئی ہے، 4000 تک عسکریت پسند تاجکستان کی جنوبی سرحد کے ساتھ افغان صوبوں بدخشاں، قندوز اورتخار میں مرکوز ہیں۔ "

روسی الزامات اسی دن سامنے آئے جب طالبان کے خصوصی دستوں نے افغان دارالحکومت میں IS-K کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا، جس میں تین عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ایک کو گرفتار کر لیا۔

گزشتہ سال ستمبر میں کابل میں ماسکو کے سفارتی مشن کے باہر ایک خودکش بم حملے میں سفارت خانے کے عملے کے کم از کم دو اورویزہ لینے والے چار افغان باشندے ہلاک ہو گئے تھے۔ IS-K نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔

دہشت گرد گروپ نے حالیہ ہفتوں میں افغان دارالحکومت میں پاکستان کے سفارت خانے اور ایک چینی ہوٹل کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

طالبان نے حال ہی میں سفارت خانوں کی حفاظت میں اضافہ کیاہے اور بار بار IS-K کی طرف سے لاحق خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی افواج نے ملک میں گروپ کی موجودگی کو نمایاں طور پر کمزور کر دیا ہے۔

امریکہ افغانستان میں IS-K کی موجودگی کو کم کرنے کے طالبان کے دعووں پر بھی سوال اٹھاتا ہے اور اس دہشت گرد گروپ کو ایک "خطرناک" اسلامک اسٹیٹ کے علاقائی ساتھی کے طور پر بیان کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG