القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں مبینہ طور پر امریکی انٹیلی جنس ادارے کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل کا کہنا ہے کہ اُن کے مؤکل کی سات سال قید کی سزا رواں ماہ مکمل ہو جائے گی جس کے بعد انہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔
شکیل آفریدی کو مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کی امریکی اسپیشل فورسز کے آپریشن میں ہلاکت کے چند روز بعد سامنے آنے والی ان اطلاعات پر گرفتار کیا گیا تھا کہ انھوں نے بن لادن کی نشان دہی کے لیے امریکہ کی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' کی معاونت کی تھی۔
اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ء کو ایبٹ آباد کے علاقے بلال آباد میں ایک عمارت پر کارروائی کے دوران ہلاک کرنے کے واقعے کو بھی بدھ کو سات سال مکمل ہو گئے ہیں۔
شکیل آفریدی کو قبائلی علاقے خیبر ایجسنی میں ایک شدت پسند گروپ کو مالی مدد دینے کے علاوہ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کا علاج کرنے اور اس تنظیم سے تعاون کی بنیاد پر چار مختلف الزامات میں 33 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں بعد میں دس سال کی تخفیف کر دی گئی تھی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اُن کے مؤکل کو تمام الزامات میں سنائی گئی سزائیں اگر ایک ساتھ شروع تصور کر لی جائیں تو اُن کی سات سال قید رواں ماہ مکمل ہو جائے گی۔
قمر ندیم کہتے ہیں کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران قیدیوں کی مختلف مواقع پر سزا میں کمی بھی کی جاتی رہی ہے اور اگر اُس کا اطلاق ڈاکٹر شکیل آفریدی پر بھی کیا جائے تو اُن کی سزا ختم ہونے کے قریب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "میں یہ اندازہ لگا رہا ہوں کہ حکومت اُنھیں رہا کرنے کا سوچ رہی ہے۔"
قمر ندیم کہتے ہیں کہ پشاور ایک انتہائی محفوظ جیل ہے جس کے اردگرد پشاور ہائی کورٹ، پولیس لائنز، صوبائی اسمبلی کی عمارتیں اور کور کمانڈر پشاور کی رہائش گاہ ہے۔
"ایک قیدی کو یہاں سے کسی اور جگہ پر لے کر جانے سے میں یہ ہی اندازہ لگاتا ہوں کہ اس کی رہائی قریب ہے۔"
قمر ندیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ اُنھیں میڈیا کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پشاور سے راولپنڈی کے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے لیکن اُن کے بقول نہ تو اُنھیں اور نہ ہی ڈاکٹر شکیل کے اہلِ خانہ کو ان کی منتقلی کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے ایک غیر جانب دار ادارے 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ کلچر خاصا عام ہے کہ ایسے افراد جن کو خفیہ ادارے پکڑتے ہیں اُن کے بارے میں معلومات کم ہی فراہم کی جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جس کے خلاف کوئی کارروائی کی جارہی ہے اس کے بارے میں متعلقہ شخص اور اُس کے لواحقین کو بتایا جائے۔
"اس سوسائٹی میں رول آف لا نہیں ہے، جس میں اس قسم کے حالات درپیش ہوں۔"
واضح رہے کہ امریکہ ڈاکٹر آفریدی کو ایک ہیرو تصور کرتا ہے جنہوں نے دنیا کے مطلوب ترین شخص سے متعلق معلومات فراہم کرنے میں معاونت کر کے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔
تاہم پاکستانی حکام یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ملک کے قوانین کے تحت سزا دی گئی اور اُن کی سزا سے متعلق فیصلہ ملک کی عدالتیں ہی کریں گی۔