آب و ہوا کی تبدیلی سے صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ جانوروں کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس کا سب سے بڑا نشانہ رائل بنگال ٹائیگرز بن رہے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان سندر بن کے جنگلات کا تیزی سے صفایا ہو رہا ہے، جو ان شیروں کا سب سے بڑا اور دنیا میں آخری محفوظ پناہ گاہ ہے۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور سمندر کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے چار ہزار مربع میل پر پھیلے مینگروز کے جنگلات کو، جنہیں سندر بن کہا جاتا ہے، اور جہاں رائل بنگال ٹائیگرز سمیت جانوروں کی ان گنت نسلیں آباد ہیں، شدید خطرات لاحق ہیں، جس سے وہاں کی جنگلی حیات معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندر بن کی بقا اب ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر رہی ہے اور یہاں آباد جنگلی حیات کی تقریباً پانچ لاکھ نسلوں کو اپنے قدرتی اور فطری ٹھکانہ کھونے کے ساتھ اپنی بقا کے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
سندر بن کے جنگلات کی 70 فیصد اراضی سطح سمندر سے اب محض چند فٹ ہی اونچی رہ گئی ہے۔ اگر پانی کی سطح مزید بلند ہوئی تو دوسرے کئی جانوروں سمیت بنگال ٹائیگرز کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔
آسٹریلیا اور بنگلا دیش کے ماہرین نے "دی جنرل سائنس آف دی انوائرنمنٹ" میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں نے شیروں کی نسل کی معدومی کے خطرات میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2070 تک بنگال ٹائیگرز کے لیے سندربن کی محفوظ پناہ گاہ حیثیت ختم ہو جائے گی۔
2010 میں بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے متعلق شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ سمندر کی سطح میں گیارہ انچ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں سندربن کے بنگال ٹائیگرز کی تعداد 96 فیصد تک گھٹ جائے گی۔
آب و ہوا کی تبدیلی پہلے ہی دنیا میں معدومی کے خطرے سے دوچار ان جانوروں کی آدھی نسل کو نگل چکی ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں۔ جنگلی حیات کو پہنچنے والے نقصان کی یہ شرح اس سے قبل لگائے گئے تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔
شریف اے مکل سندربن سے متعلق حالیہ رپورٹ کے مرکزی مصنف ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھیوں کو خدشہ ہے کہ سن 2050 اور 2070 کے عرصے میں سطح سمندر بلند ہونے سے ٹائیگرز کی نسل کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی, شیروں کا بڑے پیمانے پر شکار اور ان کے اعضا کی غیر قانونی تجارت سے ان کی نسل کو بقا کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔ بنگال ٹائیگرز کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ سندر بن کے جنگلات میں کبھی ایک لاکھ شیر ہوا کرتے تھے جو اب گھٹ کر صرف چار ہزار تک رہ گئے ہیں۔
انڈی پنڈنٹ یونیورسٹی ڈھاکہ میں انوائرنمنٹ منیجمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مکل کے مطابق سندربن میں موسموں کی شدت مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ نباتات کو بھی آب و ہوا کے تغیرات سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ خطے میں سیلاب، سمندری طوفان یا غذائی قلت سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے اور جنگلات کی کمی کے بعد جنگلی جانور آبادیوں کا رخ کر کے انسانوں پر حملوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اکتوبر میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی موجودہ سطح میں کمی نہ ہوئی تو کرہ ارض مزید گرم ہو جائے گا اور سن 2040 تک عالمی درجہ حرارت 2.7 ڈگری فارن ہائٹ تک بڑھ جائے گا جس کے پورے بنگلا دیش پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے جو پہلے ہی انتہائی گنجان آباد اور غریب ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
بنگلا دیش کے محکمہ جنگلات کے ایک عہدیدار ظہیر الدین احمد کا کہنا ہے کہ زیریں علاقوں کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ اور ایسی فصلیں متعارف کرائی جا رہی ہیں جو نمکین پانی میں کاشت بھی کی جا سکیں۔ حکومت نے سمندری طوفانوں کو آبادیوں کی جانب بڑھنے سے روکنے کے لیے پشتوں کو مضبوط بنا دیا ہے۔
ایک اور ماہر پریرنا سنگھ بندرا کا کہنا ہے کہ شیروں کو اپنی پناہ گاہوں میں کمی کا سامنا برقرار رہے گا کیوں کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور صنعتوں کے پھیلاؤ میں اضافہ مسلسل جاری ہے۔ شیروں کو تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہے۔ ویسے بھی شیروں کو رکھنے کے لیے اس گنجان سیارے پر اب جگہ ہی کہاں بچی ہے؟