رسائی کے لنکس

پاکستان میں انتخابات؛ مذہبی جماعتوں کا کردار کتنا اہم ہو گا؟


پاکستان میں ایک بار پھر عام انتخابات ہونے والے ہیں جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتیں بھی سرگرم ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا اہم کردار رہا ہے اور اس مرتبہ بھی ماہرین مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی پاکستان جیسی مذہبی و سیاسی جماعتیں تو کافی عرصے سے انتخابی عمل میں شریک ہو رہی ہیں، تاہم گزشتہ انتخابات میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ ساتھ بعض دیگر مذہبی جماعتیں بھی اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔

پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ مذہبی جماعتیں کس صوبے میں کس حد تک کامیاب ہوں گی؟ مذہبی ووٹ بینک میں کتنا فرق پڑا ہے؟ اور کیا مذہبی جماعتیں دیگر جماعتوں کو اقتدار دلانے کے لیے بطور سیڑھی استعمال ہوں گی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ انتخابات سے قبل مذہب کے حوالے سے روایتی نعرے سننے کو کیوں نہیں مل رہے ہیں؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ملک میں اس وقت 175 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں تقریباً 23 مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی سرِفہرست ہیں۔

سن 2018 کے عام انتخابات میں 10 سے زائد مذہبی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ ان انتخابات میں پانچ کروڑ 40 لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے تھے جس میں مجموعی طور پر مذہبی جماعتوں نے 50 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔

مذہبی جماعتوں کا اثر و رسوخ

مذہبی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے کہ انتخابی عمل میں ان کا ایک مستقل ووٹ بینک رہتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق یہ ووٹ بینک ان کو وفاق میں اقتدار نہیں دلا سکتا۔

انسانی حقوق کے کارکن اور معروف قانون دان طارق افغان کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں گو کہ میدان میں ماضی کی طرح موجود نہ ہوں اور انتخابات میں بڑی جماعتوں جتنا ووٹ بینک بھلے نہ رکھتی ہوں۔ لیکن سیاست اور سیاست کے ذریعے معاشرے پر ان مذہبی جماعتوں کا بہت اثر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کا اثرو رسوخ بہت کم ہے۔ لیکن معاشرے پر ان کے بڑھتے اثرات کو دیکھا جائے تو ان کی جڑیں مزید مضبوط ہوئی ہیں۔

اس بار انتخابات میں مذہبی نعرے کیوں سننے کو نہیں مل رہے؟

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ماضی میں انتخابات سے قبل مذہب کی بنیاد پر نعرے عام تھے، لیکن فی الحال ایسا نظر نہیں آ رہا۔

صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ 'مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ" جیسے نعروں سے لے کر سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم تک میں مذہبی نعروں کا استعمال کیا گیا۔

عاصمہ شیرازی کے بقول نائن الیون کے بعد جب امریکی اتحادی افواج نے افغانستان میں جنگ چھیڑی تو پاکستان میں پہلے طالبان کی حمایت میں "دفاع افغانستان و پاکستان کونسل" بنی اور پھر اسی پلیٹ فارم سے چھ دینی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل کا وجود عمل میں آیا۔

اُن کے بقول اس انتخابی اتحاد نے ملک کے دو صوبوں میں اقتدار حاصل کیا۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ "میرا خیال ہے کہ بات اب نعروں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب مذہبی جماعتوں کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی مذہب کا سہارا لے رہی ہیں۔"

اُن کے بقول تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا جس طرح پنجاب سے آغاز ہوا اور پھر یہ ایک سیاسی قوت بن گئی، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے ان پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر مذہبی جماعتوں کے اثرات

گو کہ وفاق میں مذہبی جماعتیں کبھی مکمل اقتدار میں نہیں آئیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے دور میں مذہبی جماعتوں کو پنپنے کا بھرپور موقع ملا۔

ماہرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) میں شامل کئی اہم رہنماؤں نے بھی اپنی سیاست کا آغاز جماعتِ اسلامی پاکستان سے کیا جن میں حنیف عباسی اور احسن اقبال شامل ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما فیاض الحسن چوہان نے بھی اپنی سیاست کا آغاز جماعتِ اسلامی سے کیا۔

طارق افغان کہتے ہیں کہ ملک میں کئی قوانین کے بننے میں ان دینی جماعتوں کے دباؤ کا بہت کردار رہا ہے۔

اُن کے بقول کئی بڑے رہنما جو کبھی جماعتِ اسلامی کی ذیلی تنظیموں کا حصہ تھے اب پاپولر جماعتوں میں جا کر بیٹھے ہیں اور وہاں سے قانون سازی میں اپنے نظریات کو لاگو کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مذہبی جماعتیں عوامی اجتماعات میں یہ دعوے کرتی نظر آتی ہیں کہ وہ اسلامی قوانین کے نفاذ اور شریعت کی بالادستی کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھتے ہیں۔

'مذہبی جماعتیں بڑی سیاسی جماعتوں کو بھرپور ٹکر دے رہی ہیں'

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ "بائیں بازو کی سیاست تو اب رہی نہیں۔ اب نظریات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔ اب ضرورت کے تحت سیاست میں مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے۔"

اُن کے بقول پنجاب میں تو تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی شکل میں ہم نے یہ دیکھا۔ لیکن کراچی میں بھی جہاں پڑھا لکھا ایک لبرل طبقہ موجود ہے وہاں بھی ان کا سیاست پر اثرو رسوخ بڑھ چکا ہے۔

طارق افغان کے بقول حالیہ انتخابی مہم میں بالائی سندھ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے بڑھتے ہوئے اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سندھ جس کو پیپلزپارٹی کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اب وہاں پر دینی جماعتیں پیپلزپارٹی کو بھرپور ٹکر دیتی نظر آتی ہیں۔

اُن کے بقول خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تو دینی جماعتوں کی حکمرانی کی ایک تاریخ رہی ہے۔ لیکن اب سندھ اور پنجاب میں بھی مذہبی جماعتوں نے بڑی جماعتوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔

اُن کے بقول خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندی کی لہر کے باعث کسی حد تک ان دینی جماعتوں کے امیج کو نقصان پہنچا۔ تاہم اس کے باوجود ان دو صوبوں میں اب بھی دینی جماعتوں خصوصاً جے یو آئی (ف) کا اثرو رسوخ لبرل اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک

محقق اور مصنف ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں تو قبائلی اضلاع کی حد تک جے یو آئی (ف) اور قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے درمیان سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ تک بات پہنچ چکی تھی۔ لیکن نشستوں کی تقسیم پر اختلافات ہو گئے۔

اُن کے بقول اسی طرح پنجاب اور سندھ میں ٹی ایل پی اور جماعتِ اسلامی کا ووٹر اپنے اپنے حلقوں میں مؤثر کردار ادا کرے گا جب کہ بلوچستان میں بھی جے یو آئی (ف) بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتی نظر آئے گی۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ژوب بلوچستان کی قومی نشست سے بھی انتخابی دنگل میں اترے ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ تحریکِ انصاف کی مشکلات کے باعث ان دینی جماعتوں کے لیے راستے تھوڑے کھل گئے ہیں۔

اُن کے بقول پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ووٹرز کی بڑی تعداد مذہبی جماعتوں کی طرف رجوع نہیں کرے گی کیوں کہ پی ٹی آئی سے اُن کا لگاؤ مذہب کی وجہ سے نہیں تھا۔

کامران بخاری کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا اور دیگر علاقوں میں جماعتِ اسلامی، ٹی ایل پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) پی ٹی آئی کی عدم موجودگی کا فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG