پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں سیاسی جلسے، وعدے اور منشور کے اعلانات سامنے آرہے ہیں وہیں بہت سی سیاسی جماعتیں اتحادیوں کی تلاش میں ہیں۔
صوبۂ سندھ میں جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی گزشتہ 15 برسوں سے حکمرانی ہے وہاں اب مسلم لیگ (ن) اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک حریف جماعت کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 29 دسمبر کو کراچی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنماؤں پیر پگارا، پیر صدرالدین راشدی، مرتضی جتوئی اور ذولفقار مرزا سے ملاقات کی۔
مسلم لیگ (ن) کے وفد نے ان ملاقاتوں میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر معاملات پر بات چیت کی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سندھ کے انتخابی محاذ کو مضبوط کرتے ہوئے مرکز میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خواہش مند ہے۔
سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کئی برسوں سے بنا کسی رکاوٹ سندھ میں حکمرانی انجوائے کر رہی تھی لیکن اب مخالف اتحاد سے اسے کسی حد تک مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے سامنے دوسری بڑی حریف جماعت جماعتِ اسلامی ہے جس نے اسے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ٹف ٹائم دیا تھا۔
واضح رہے کہ کراچی کے انتخابی محاذ پر مسلم لیگ (ن) کو ایم کیو ایم اور اندرونِ سندھ کئی نشستوں پر جی ڈی اے کا ساتھ درکار ہوگا۔
ایم کیو ایم رہنماؤں سے ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی کم سے کم 10 نشستوں پر ان کی جماعت کی حمایت کرے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی چھ نشستوں پر حمایت کی پیشکش کر رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی کراچی میں قومی اسمبلی کی جن پانچ نشستوں میں دلچسپی ہے اس میں ایک نشست این اے 242 بھی ہے جس پر شہباز شریف اور ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کے کاغذات نامزدگی جمع ہیں۔ اس نشست پر کسی بھی جماعت کے الیکشن لڑنے سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ این اے 239 سے اس کے اتحادی جمعیت علمائے پاکستان (ف) کے امیدوار اور این اے 240 سے جمعیت علمائے پاکستان (ن) کے انس نورانی الیکشن لڑیں لیکن ایم کیو ایم ابھی تک اس بات پر قائم نظر آرہی ہے کہ عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حمایت تو کرسکتی ہے لیکن اس کے اتحادیوں کی نہیں۔
واضح رہے کہ 2018 کے انتخابات میں کراچی کے حلقہ این اے 249 پر تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے مسلم لیگ (ن) کے میاں شہباز شریف کو 718 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ جس پر شہباز شریف نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے ریٹرننگ افسر نے مسترد کردیا تھا۔
سن 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
ایم کیو ایم سے اتحاد کا (ن) لیگ کو کراچی میں کیا فائدہ ہوگا؟
سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق 2018 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف نے کراچی سے 14 نشستیں حاصل کر کے سب کو حیران کردیا تھا لیکن اب جب 2024 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کا اتحاد ہے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حاصل کردہ نشستوں میں سے اگر ایم کیو ایم اپنی آٹھ سیٹیں بھی جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو اتحادی کے طور پر ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جی ڈی اے کی حمایت سے بھی فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہی ہوگا۔
تجزیہ کار سید طلعت حسین کے خیال میں سندھ میں مسلم لیگ (ن) لیگ کا وجود ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ شہباز شریف دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی کے بعض حلقوں میں ان کی جماعت مقبول ہے لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو (ن) لیگ سندھ میں کمزور ہی رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کے دو مقاصد ہیں، ایک تو یہ کہ ان کے پاس ایسی جماعت موجود ہو جو ان کے لیے اہم سیٹیں جیت سکے جو بطور اتحادی مرکز میں حکومت سازی کے لیے مدد دے سکے اور دوسرا یہ کہ جن حلقوں میں لیگی ووٹرز ہے اسے ایم کیو ایم کے نمبرز میں اضافے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم سپورٹ رول میں ہے، اصل لڑائی سندھ میں نہیں مرکز میں ہے جس کے لیے مسلم لیگ (ن) کوششیں کر رہی ہے۔
ن لیگ کراچی میں ایم کیو ایم کی حمایت کیوں کر رہی ہے؟
طلعت حسین کے خیال میں اگر کراچی میں ایم کیو ایم نہیں جیتی تو تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی کامیاب ہو سکتی ہے اور مرکز میں (ن) لیگ کو ان دونوں جماعتوں کی کامیابی سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو معلوم ہے کہ اگر ان کی حکومت مرکز میں بنتی ہے انہیں لازماً کسی جماعت سے اتحاد کرنا ہو گا اور ایم کیو ایم سے اتحاد دراصل اپنے آپ کو مرکز میں مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔
طلعت حسین ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد سے متعلق کہتے ہیں ن لیگی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر الیکشن ایسا ہوتا ہے جس میں ان کے اور ان کے مخالفین کے نمبرز برابر آتے ہیں تو ایسی صورت میں ایم کیو ایم کے نمبرز اہمیت اختیار کرلیں گے۔ اس صورت میں بجائے اس کے کہ ایم کیو ایم کسی دوسری طرف جاکر بیٹھے، اس سے پہلے ہی معاملات طے کر لیے جائیں۔
واضح رہے کہ 2013 کے انتخابات میں کراچی سے 20 نشستوں میں ایم کیو ایم 17 سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی لیکن بائیس اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے ہونے والی ٹیلی فونک خطاب کے دوران آرمی اور پاکستان مخالف نعرے لگانے کے بعد ان پر پابندی عائد کردی گئی تھی جس کے بعد ایم کیو ایم پر خاصی تنقید رہی اور پارٹی دباو کا شکار نظر آئی۔
سن 2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے اہم ترین نشستوں پر پی ٹی آئی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اب توقع کی جارہی ہے کہ ایم کیو ایم ایک بار پھر سے ان انتخابات میں اپنی کھوئی ہوئی نشستوں کو واپس لینے کی پوزیشن میں ہے جس کا فائدہ ان کے اتحادیوں کو مرکز میں ہوسکتا ہے۔
فورم