پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد چند ہی روز میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان مریضوں میں اکثریت اُن کی ہے جو ایران سے پاکستان پہنچے تھے۔ انہیں سرحدی علاقے تافتان میں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا۔
ایران سے آنے والے زائرین کو تفتان کے قرنطینہ میں 14 روز تک رکھا گیا، جس کے بعد انہیں اپنے اپنے صوبوں میں منتقل کیا گیا۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ نے تافتان قرنطینہ میں ناقص انتظامات کا بیان دیا تھا۔ جس کے بعد وفاقی حکومت اور پاکستان کے مختلف صوبوں کے درمیان انتظامات کے معاملے پر لفظی نوک جھونک جاری ہے۔
ناقدین کا یہ الزام ہے کہ تفتان قرنطینہ میں عالمی معیار کے مطابق انتظامات نہیں تھے۔ مریضوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب رکھا گیا۔ حالاں کہ ایسی صورتِ حال میں مریضوں کو الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔
'تفتان میں خوف و ہراس میں رکھا گیا'
تفتان بارڈر پر قائم قرنطینہ میں رہنے کے بعد سکھر پہنچنے والے علی رضا کہتے ہیں کہ تفتان میں بنائے گئے قرنطینہ میں احتیاطی تدابیر کے برخلاف لوگوں کو نگہداشت میں نہیں رکھا گیا، ایک کیمپ میں ایک ایک خاندان مقیم رہا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تفتان پر انہیں خوف و ہراس کے عالم میں رکھا گیا نہ ہی معلومات دی جاتی تھی نہ ہی وائرس کو جانچنے کے انتظامات، ادویات و دیگر سہولیات میسر تھیں۔
علی رضا نے بتایا کہ ان سمیت 301 افراد کا قافلہ تفتان سے سندھ پہنچا تو انہیں دوبارہ سکھر میں قائم قرنطینہ میں منتقل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تفتان کے برعکس سکھر میں قائم قرنطینہ میں تمام افراد کو الگ رکھا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 134 افراد ایسے ہیں جو قرنطینہ میں رہنے کے باوجود کرونا وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
'تفتان ناقص انتظام وبا کے پھیلاؤ کا باعث بنے'
صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ قرنطینہ میں ناقص انتظامات وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ ہے۔ وزارتِ صحت کی جانب سے کرونا وائرس کے حوالے سے احتتاطی تدابیر اور غیر مناسب اقدامات پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
صوبائی وزیر صحت خیبر پختونخوا تیمور خان جھگڑا نے ایک بیان میں کہا کہ ایک ہفتہ قبل تفتان سے 19 افراد ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے ہیں جن میں سے 15 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
تفتان قرنطینہ کے ناقدین میں شامل وزیر اعلٰی سندھ نے مزید کہا تھا کہ "جب تفتان سے سندھ پہنچنے والے افراد میں کرونا وائرس کے مثبت نتائج آئے تو تشویش میں اضافہ ہوا۔"
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی کرونا وائرس کے حوالے سے وفاقی حکومت کے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب سرحدیں بند ہیں تو کرونا وائرس کے متاثرہ افراد کہاں سے آ رہے ہیں۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تشخیص ہو چکی ہے اور صوبہ سندھ اس وبا سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کئی افراد میں وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔
سندھ حکومت کے ترجمان کہتے ہیں کہ صوبے میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے کی وجہ تفتان بارڈر پر قرنطینہ میں رکھے گئے افراد کی واپسی ہے۔ جن کے دوبارہ ٹیسٹ کیے جانے پر کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ تفتان میں قرنطینہ میں رہنے والے افراد نے سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایات کی تھیں۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر تفتان کے قرنطینہ میں کیے گئے انتظامات کی بعض تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں۔ جن میں دکھایا گیا ہے کہ مشتبہ مریضوں کو مکمل طور پر نگہداشت وارڈ میں رکھنے کے انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔ اور وہ ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر مل جل رہے تھے۔
'تافتان انتظامات کے لیے مشکل جگہ تھی'
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے بعد تنقید کی ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکومت وبا کو روکنے کے لیے حکمت عملی میں ناکام ہوئی۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مزرا نے بھی پیر کو نیوز کانفرنس کے دوران اعتراف کیا تھا کہ تفتان قرنطینہ میں انتظامات تسلی بخش نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایران سے واپس آنے والوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے تفتان مناسب جگہ نہیں تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں نے ان افراد کے دوبارہ ٹیسٹ کر کے اچھا کیا۔
خیال رہے کہ معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے تفتان پر قرنطینہ کے انتظامات کا نہ صرف خود جائزہ لیا تھا بلکہ اس حوالے سے انتطامات کے لیے وہ تین روز تک بلوچستان میں رہے تھے۔