رسائی کے لنکس

'ہماری خواتین اور غیر مردوں کو ووٹ ڈالیں؟'


اگرچہ انتخابی قوانین کی رو سے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے کم از کم 10 فی صد خواتین کو ٹکٹ دینا لازمی ہے لیکن کئی جماعتوں نے یہ شرط پوری نہیں کی۔

صدیاں گزرنے اور زمانے بدلنے کے باوجود پاکستان کے بعض علاقوں میں اب بھی خواتین کے ووٹ ڈالنے سے متعلق مردوں کی رائے نہیں بدلی۔

خوشاب کے دیہی علاقے جہان خان کے رہائشی شکر خان کا کہنا ہے کہ "ہم مرد لوگ مرگئے ہیں کیا جو ہماری عورتیں ووٹ ڈالنے گھر سے نکلیں؟

مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے نامزد امیدوار ہارون سلطان تو شکر خان سے بھی دو قدم آگے نکلے۔ ان کا کہنا ہے کہ "عورت کو ووٹ دینا حرام ہے۔"

یہ دونوں خیالات اس جانب واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان میں تاحال خواتین کے ووٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ دور دراز شہروں اور بالائی صوبوں کی خواتین کو خود بھی اپنے ووٹ کی حیثیت کا علم نہیں۔ نہ ہی وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے ووٹ ڈالنے کا مقصد کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کی بیشتر خواتین کو حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے مردوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ گھر کے مردوں کی اجازت کے بغیر وہ نہ تو ووٹ ڈالنے کا تصور کرسکتی ہیں اور نہ ہی اس کا استعمال اپنی مرضی سے کرسکتی ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں تو اس کی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ضلع دیر بالا کی ہی مثال لے لیں جہاں پچھلے 40 سال سے الیکشن میں خواتین کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم اس بار پہلی مرتبہ وہاں کی دو خواتین انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام حمیدہ شاہد ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی نامزد امیدوار ہیں۔

اگرچہ انتخابی قوانین کی رو سے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے کم از کم 10 فی صد خواتین کو ٹکٹ دینا لازمی ہے لیکن کئی جماعتوں نے یہ شرط پوری نہیں کی۔

متحدہ مجلس عمل نے چند خواتین کو ٹکٹ دینا مناسب نہ سمجھا اور اپنے امیدواروں کو ٹکٹوں سے محروم کرانے کو ترجیح دی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف نے بھی، جس کے جلسوں میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی رہی ہے، کراچی سے کسی خاتون کو جنرل سیٹ پر قومی اسمبلی کے لیے نامزد نہیں کیا۔

ہارون سلطان بخاری کے خلاف کارروائی
پاکستان الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 184 اور این اے 186 مظفر گڑھ سے مسلم لیگ نون کے نامزد امیدوار ہارون سلطان کے خواتین کو ووٹ دینے کو حرام قرار دینے کے بیان کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے ہارون سلطان بخاری کے اس بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے۔

مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ ن لیگی امیدوار نے یہ بیان ذاتی حیثیت میں دیا ہے، اس کا پارٹی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ پارٹی قیادت نے ہارون سلطان کے بیان پر ہدایات جاری کردیں ہیں، ان کے مطابق عمل کیا جائے گا۔

خوشاب، 70 سال سے اجازت کی منتظر خواتین
پنجاب کے علاقے خوشاب کے دو دیہات ’گھگھ کلاں‘ اور’ گھگھ خور‘ کی خواتین کو پاکستان بننے سے اب تک ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ یہ دونوں دیہات حلقہ این اے 93 یونین کونسل سندرال میں واقع ہیں۔

یہاں کی خواتین نے 70 برسوں سالوں میں ایک بھی مرتبہ ووٹ نہیں ڈالا کیوں کہ گھر کے مردوں کی طرف سے انہیں حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ یہاں کے مرد اپنی خواتین کو گھر سے نکل کر ’غیر مردوں‘ کو ووٹ دینا کسی طور پسند نہیں کرتے۔ غالباً وہ اسے اپنی ’ہتک‘ یا پھر ’بے حیائی‘ تصور کرتے ہیں۔

قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ اسی حلقے سے مسلسل تین بار نامور خاتون سیاست دان سمیرا ملک انتخابات میں کامیاب ہوتی رہی ہیں اور 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں بھی وہ مسلم لیگ (ن) کی امیدوار ہیں۔

چھپن سال سے خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق سن 2013 میں ہونے والی انتخابات میں پنجاب کے دھرنال، جہان خان اور دیوی داس پورا نامی تین دیہات میں سترہ پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی کسی عورت کا ووٹ کاسٹ نہیں ہوا۔

ایک دیہی مکین سے جب اس بارے میں میڈیا کے نمائندوں نے سوال کیا تو جہاں خان نامی گاؤں کے 55 سالہ رہائشی شکر خان نے نہایت غصے میں جواب دیا، "ہم مرد لوگ مرگئے ہیں کیا جو ہماری عورتیں ووٹ ڈالنے گھر سے نکلیں۔"

یہاں خواتین کے ووٹ کاسٹ نہ کرنے کی وجہ وہ پابندی ہے جو 56 سال پہلے ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر جانی دشمنی کے نتیجے میں خواتین کے ووٹ دینے پر دو گروپوں کے تصادم کے بعد پنچایت کی جانب سے عائد کی گئی تھی۔ یہ پابندی طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود آج بھی برقرار ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے سیاست دان ملک یاران خان کا اس حوالے سے ایک میڈیا انٹرویو میں کہنا تھا کہ "یہاں آج بھی پابندی پر اس قدر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے کہ کوئی امیدوار خواتین کے ووٹ ڈالنے کا ذکر تک نہیں کر سکتا۔"

انہوں نے ایک سوال پر کہا، "مجھے تو اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نظر نہیں آتی۔ اگر خواتین مقامی روایات پر عمل پیرا ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ اس پر کسی اور کو اعتراض کرنے کا تو کوئی حق ہی نہیں۔"

XS
SM
MD
LG