پاکستان کے صوبے خیبر پختوںخوا کی کابینہ سے تین وزرا کی برطرفی کے بعد بھاری اکثریت سے قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے چہ موگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سینئر وزیر برائے کھیل، ثقافت، سیاحت و آثار قدیمہ محمد عاطف خان، وزیر صحت شہرام خان ترکئی اور وزیر برائے ریونیو و ریاستی امور شکیل احمد خان کو مبینہ طور پر وزیر اعلٰی محمود خان کے خلاف محاذ بنانے کی پاداش میں ہٹایا گیا۔
سیاسی تجربہ کار اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھاری اکثریت کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت مشکلات سے دوچار ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ واضح اکثریت کے باوجود تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکی۔
سیاسی ماہرین کے بقول عمران خان کی رضا مندی کے بعد وزیر اعلٰی محمود خان نے تین وزرا کو فارغ کیا۔ خیال رہے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد عاطف خان بھی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی کے لیے مضبوط اُمیدوار سمجھے جا رہے تھے۔
اُن دنوں یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی تھیں کہ سابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک دوبارہ وزیر اعلٰی بننے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن عمران خان نے اُنہیں وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا۔ اور محمود خان کو وزیر اعلٰی بنا دیا گیا۔
پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کو وزیر اعلٰی بنائے جانے پر نہ صرف تحریک انصاف بلکہ صحافتی حلقے بھی سوالات اُٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان ان دونوں وزرائے اعلٰی کی مکمل حمایت کرتے آئے ہیں۔
ہٹائے جانے والے وزرا کا موقف سامنا آیا تھا کہ اُنہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی کے تحت صوبے میں آواز بلند کی تھی۔ تینوں وزرا نے وزیر اعلٰی کے خلاف محاذ بنانے کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
تینوں وزراء کی برطرفی کے بعد وزیر اعلیٰ محمود خان نے پیر کو حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ جس میں صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کے بقول 92 میں سے 81 اراکین نے شرکت کی تھی۔
لیکن بعض خبروں کے مطابق عشائیہ میں صرف 65 اراکین نے شرکت کی تھی جبکہ 26 عائب تھے۔ دریں اثنا کابینہ میں تین محکمے خالی ہونے کے بعد خیبر پختونخوا میں وزارتوں کے حصول کے لیے بھی اراکین اسمبلی نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تینوں وزرا کے خلاف کارروائی کے بعد اب حکمراں جماعت میں اختلافات اور دھڑے بندی کا باب بند ہو گیا ہے۔
شوکت یوسفزئی کے بقول وزیر اعظم عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ جو بھی پارٹی پالیسی کی مخالفت کرے گا۔ اُس کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے اس اقدام کے بعد پنجاب اور بلوچستان میں بھی اختلافات کی خبریں دم توڑ گئی ہیں۔
لیکن صوابی سے منتخب ہونے والے رُکن قومی اسمبلی انجینئر عثمان ترکئی نے کابینہ سے تین وزرا کو ہٹائے جانے کی مذمت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ تینوں وزرا کو بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف آواز اُٹھانے کی سزا ملی ہے۔ عثمان ترکئی، فارغ کیے جانے والے صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے قریبی رشتہ دار ہیں۔
خیبرپختونخوا میں وزرا کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کیا۔ اور واضح کیا کہ پنجاب میں عثمان بزدار ہی وزیر اعلٰی پنجاب رہیں گے۔