امریکہ کے محکمہ خارجہ نے ڈھاکہ میں ایک دہشت گرد حملے میں ملوث افراد سے متعلق معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے 'ریوارڈ فار جسٹس' پروگرام کے تحت 50 لاکھ ڈالر کے انعام کی پیش کش کی ہے۔ اس حملے میں بنگلہ دیشی نژاد امریکی بلاگر اویجت رائے ہلاک اور ان کی اہلیہ بونیا احمد زخمی ہو گئی تھیں۔
اویجت رائے اپنے بلاگز میں مذہبی انتہاپسندی کو موضوع بناتے تھے۔ ان پر 2015 میں اس وقت چاقو اور خنجروں سے حملہ کیا گیا جب وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے کتاب میلے میں شرکت کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ رات گئے اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔
یہ حملہ بنگلہ دیش میں آزادانہ خیالات رکھنے والی با اثر آوازوں کے خلاف سلسلے وار حملوں میں سے ایک تھا، جس کا الزام اسلامی انتہاپسند گروپ 'انصار الاسلام' پر لگایا گیا تھا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری میں مدد سے متعلق اعلان کے بعد بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسدالزمان خان کمال نے ڈھاکہ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اویجت رائے کے قتل کے پیچھے دو منصوبہ سازوں میجر سید ضیا الحق اور اکرام حسین کا ہاتھ تھا، جو بیرون ملک روپوش ہیں اور ہم انہیں تلاش کر رہے ہیں۔
ڈھاکہ کے انسداد دہشت گردی کے خصوصی ٹریبونل نے اس سال 16 فروری کو سید ضیا، اکرام اور تین دوسرے دہشت گردوں کو اویجت کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔ یہ تینوں مجرم جیل میں ہیں، جب کہ اس دہشت گردی میں ملوث ایک اور شخص سیف الرحمن فارابی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
اس سے قبل سیکولر خیالات رکھنے والے بلاگر کے قتل کے بعد بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے پانچ افراد کو موت کی سزا اور ایک کو عمر قید سنائی تھی، جسے ٹریبونل نے برقرار رکھا۔
امریکہ میں مقیم اویجت رائے کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا اور حملے کے وقت وہ دورے پر ڈھاکہ میں تھے اور کچھ ہی عرصے کے بعد واپس امریکہ جانے والے تھے۔
دہشت گردوں نے ان کی اہلیہ پر بھی قاتلانہ وار کیے جس سے وہ شدید زخمی ہوئیں۔ تاہم، وہ بچ گئیں۔
پولیس کے مطابق اس قتل میں انصارالاسلام گروپ کا ہاتھ تھا۔ یہ گروپ اس سے قبل ایک درجن سے زیادہ سیکولر خیالات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور بلاگرز کو قتل کر چکا تھا۔
دہشت گردی کے یہ واقعات بنگلہ دیش میں 2013 سے 2016 کے دوران رونما ہوئے تھے۔ اس سلسلے کا سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملہ ڈھاکہ میں یکم جولائی 2016 کو ایک معروف کیفے میں ہوا جس میں غیر ملکیوں کا آنا جانا تھا۔ اس حملے میں غیرملکیوں سمیت 20 افراد مارے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد بنگلہ دیش نے بڑے پیمانے پر اسلامی انتہا پسندوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی، جس میں ایک سو سے زیادہ افراد سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک اور سینکڑوں گرفتار ہوئے۔
اویجت رائے آزاد خیال بنگلہ دیشیوں میں مقبول تھے۔ انہوں نے سیکولر نظریات کے فروغ کے لیے انٹرنیٹ پر 'موکتو مونا' کے نام سے ایک ویب سائٹ قائم کی تھی، جس میں وہ اپنے نظریات کا اظہار کرتے تھے۔
وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے اور ان کے مضامین اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے۔
ان کا آخری آرٹیکل 'فری انکوائری' میگزین میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ان کے نزدیک مذہبی انتہاپسندی بہت تیزی سے پھیلنے والے وائرس کی مانند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اپنے تجربات کے مطابق مذہبی انتہاپسندی عقیدے کا ہولناک وائرس ہے۔
اویجت رائے کا تعلق ایک ہندو گھرانے سے تھا۔ وہ 1972 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری لی جس کے بعد وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ حملے کے وقت ان کی عمر 42 سال تھی۔