اس ہفتے کے اختتام تک ری پبلیکن پارٹی سرکاری طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر لے گی، جس کے آغاز پر آج عام انتخابات کی دوڑ کی جانب تیزی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں، جو آٹھ نومبر کو جا کر ختم ہوگی جب امریکہ ووٹر صدارتی انتخابات میں اپنا فیصلہ دیں گے۔
ریاستِ اوہائیو کے شہر، کلیولینڈ میں پیر کے روز پارٹی کنویشن کے آغاز پر، دھیان قومی سلامتی اور امی گریشن پر مرکوز دکھائی دیا۔
تقاریر کرنے والوں میں ٹیکساس کی سرحدی ریاست کے گورنر، رِک پیری؛ لیبیا کے شہر بن غازی میں ہلاک ہونے والے ایک امریکی کی والدہ اور امی گریشن سے متعلق متعدد وکلاٴ، نیویارک کے سابق میئر روڈی جولیانی اور ٹرمپ کی بیوی میلانیا شامل ہیں۔
سی بی ایس کے پروگرام ’60 منٹس‘ کی اتوار کی نشریات میں، ٹرمپ نے دنیا کی صورت حال پر ایک سوال کا جواب دیا جو نکتہ چینی کا باعث بن سکتا ہے، جو سوال اِسی ہفتے صدر براک اوباما اور ڈیموکریٹک پارٹی کی متوقع امیدوار ہیلری کلنٹن سے بھی کیا جائے گا۔
’مضبوط ہونے کی ضرورت‘
ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’ہمیں مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ اوباما کمزور ہیں، ہیلری کمزور ہیں۔ اس کا ایک حصہ، ایک بڑا حصہ یہ ہے کہ ہمیں امن و امان کی ضرورت ہے۔ ہمیں مضبوط سرحدوں کی ضرورت ہے‘‘۔
ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ 2003ء میں اُنھوں نےعراق کو فتح کرنے کی مخالفت کی تھی جب کہ، بقول اُن کے، کلنٹن نے امریکی سینیٹ میں لڑائی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ٹرمپ کے نامزد کردہ نائب صدارتی امیدوار، انڈیانا کے گورنر مائیک پینس نے بھی لڑائی کے حق میں ووٹ دیا تھا، جب وہ ایوانِ نمائندگان کے رُکن تھے۔
جب اُن سے کہا گیا ہے پینس نے بھی اس لڑائی کی حمایت کی تھی، تو ٹرمپ نے کہا کہ ’’مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ یہ بہت پہلے ہوا۔ اُنھوں نے اس طرح ووٹ دیا چونکہ اُنھیں بھی گمراہ کیا گیا تھا۔ لوگوں کو بہت زیادہ اطلاعات فراہم کی گئی تھیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ کلنٹن کی جانب سے ووٹ دیا جانا یکساں معاملہ نہیں۔
سچے کنزرویٹو
ٹرمپ کے ایک حامی، یوحنا بلین ریاستِ ٹینیسی سے کلیولینڈ پہنچے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ ٹرمپ کی حمایت نہیں کرتے وہ ’’سچے کنزرویٹو نہیں ہیں‘‘۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’میرے خیال میں، وہ غدار ہیں۔ یا تو وہ اُن کی حمایت کریں یا پھر راہ سے ہٹ جائیں‘‘۔
میڈ بینجامن ’کوڈ پنک‘ نامی صلح جو گروپ کے شریک سربراہ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ گروپ کلیولینڈ میں موجود ہے جو ٹرمپ کے خلاف احتجاج کرے گا، چونکہ اُن کی گفتگو ’’نسل پرستانہ‘‘ ہے اور ’’وہ نفرت اور خوف پر مبنی پروپیگنڈا کر رہے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ہمارے خیال میں یہ وہ ملک نہیں رہا جس کا ہم دم بھرتے ہیں، ناہی یہ وہ ملک ہے جسے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے‘‘۔
صدارتی نامزدگی
پرائمری انتخابی مرحلے کے دوران ٹرمپ 16 دیگر امیدواروں سے سبقت لے چکے ہیں، اور جمعرات کو اُنھیں صدارتی امیدوار نامزد کیا جائے گا۔
ری پبلیکن پارٹی کے چیرمین، رائنس پریبس نے اتوار کے روز کہا کہ اُنھیں یقین ہے کہ نامزدگی کی پیش کش قبول کرنے کے موقعے پر تقریر کے دوران ٹرمپ ووٹروں پر چھا جائیں گے، جس میں وہ ایک باوقار رہنما کا سماں باندھیں گے۔
ایسے میں جب کچھ رہنما، جن میں ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن شامل ہیں کنویشن سے خطاب کریں گے؛ جب کہ سابق صدور جارج ایچ ڈبلیو بش اور جارج ڈبلیو بش؛ سابق صدارتی امیدوار جان مکین اور مِٹ رومنی کنوینشن میں شرکت نہیں کریں گے۔
ڈیموکریٹک کنوینشن
آئندہ ہفتے پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ہونے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے کنوینشن میں، کلنٹن صدارتی نامزدگی قبول کریں گی۔
اتوار کو رائے عامہ کے تین جائزے جاری ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ کلٹن کو ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے۔ اے بی سی نیوز/واشنگٹن پوسٹ پول میں کلنٹن کو 43 فی صد کےمقابلے میں 47 فی صد کی شرح سے سبقت حاصل ہے؛ جب کہ این بی سی نیوز اور دی وال اسٹریٹ جرنل نے کلنٹن کو 47 اور ٹرمپ کو 41 فی صد؛ جب کہ سی این این/او آر سی انٹرنیشنل نے کلنٹن کو 49 جب کہ ٹرمپ کو 42 فی صد کی مقبولیت کے درجے پر ظاہر کیا ہے۔