امریکہ کے صدارتی انتخاب کے بعد تیسرا دن تھا جب مجھے دفتر سے فون آیا کہ آپ کو ریاست ڈیلاویئر میں جو بائیڈن کے الیکشن ہیڈ کوارٹر جانا ہے۔ میں اگلے دو گھنٹے میں روانگی کے لیے تیار تھی۔
ڈیلاویئر پہنچ کر سامان ہو ٹل میں رکھا اور بائیڈن کے الیکشن ہیڈکوارٹر پہنچی۔ شام ہو چکی تھی اور سردی بڑھ رہی تھی۔ دنیا بھر کا میڈیا جمع تھا۔ ایک بہت بڑا اسٹیج بھی سجایا گیا تھا۔ الیکشن کے دوران جو بائیڈن اکثر یہاں تقریر کرنے پہنچ جاتے۔ اس شام بھی توقع کی جا رہی تھی کہ بائیڈن وہاں آئیں گے اور میڈیا سے گفتگو کریں گے۔
دوسرے دن صبح ساڑھے چھ بجے میں پھر وہاں تھی۔ لائیو براڈکاسٹ سے فارغ ہوئی تو تھکن محسوس ہوئی اور کھانسی بھی آنے لگی۔ کھانسی پورا دن وقفے وقفے سے ہوتی رہی مگر زیادہ نہیں تھی۔ کمزوری کے ساتھ ساتھ جسم میں درد بھی ہوتا رہا۔ میں نے سوچا شاید الیکشن میں مسلسل کام کی وجہ سے تھکاوٹ ہے اور سردی بھی ہے۔ اس لیے ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ لیکن جسم میں درد بدستور تھا اور لگ رہا تھا جیسے بخار ہو۔ قریبی میڈیکل اسٹور گئی اور درد اور بخار کی دوائی خریدی۔
اس دن توقع کی جا رہی تھی کہ چوں کہ بائیڈن جیت کے قریب ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں آ کر خطاب کریں۔ لیکن انہوں نے ویڈیو خطاب کیا اور اپنی جیت کے امکان پر پرجوش دکھائی دیے۔
دوائی کھانے کے باوجود دوسری صبح طبعیت زیادہ خراب تھی۔ بخار اور جسم کا درد بدستور تھا۔ اس لیے قریبی ڈاکٹر کے پاس گئی۔ انہوں نے کچھ ابتدائی ٹیسٹ کے ساتھ کووڈ-19 کا ٹیسٹ بھی کیا۔ کچھ دوائیاں لکھیں اور کہا کہ رزلٹ کل ملے گا۔
میں ڈاکٹر کے ہاں سے پھر بائیڈن کے ہیڈ کوارٹر جانے کے لیے نکلی۔ لیکن سیکیورٹی کی وجہ سے گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے ہمیں کہا گیا کہ ایک میل تک پیدل چل کر وہاں پہنچنا ہوگا۔ وہاں پہنچے تو رش بے حد تھا۔ اندر گئے تو بتایا گیا کہ آج بائیڈن یہاں پہنچ کر حطاب کرنے والے ہیں۔ لوگ سیکڑوں کی تعداد میں پیدل اور گاڑیوں میں آ رہے تھے۔ کھڑے ہونے کی گنجائش نہیں تھی۔
بائیڈن وہاں رات دیر گئے آئے۔ بیس منٹ خطاب کے بعد آتش بازی اور جشن کا سماں بندھا۔ یہ ایک طرح سے بائیڈن کی جیت کا جشن تھا۔
چوتھے دن صبح بھی وہی علامات تھیں۔ لیکن کمزوری زیادہ نہیں تھی۔ شام کو گھر پہنچی۔ ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ڈیلاویئر سے ڈاکٹر کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ اپ فوراً الگ کمرے میں چلی جائیے۔ کووڈ-19 کا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے۔
ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے میں فوراً کمرے میں چلی گئی۔ ڈاکٹر نے مزید کہا کہ وٹامن سی 1000 ملی گرام اور زنک 80 ملی گرام روزانہ کھانی ہے اور پانی بہت پینا ہے۔ اگر کسی لمحے یہ محسوس ہو کہ سانس میں تکلیف ہے تو اسپتال کی ایمرجنسی جانا ہوگا۔
اگلی صبح پانچویں دن ریاست کے محکمۂ صحت کی طرف سے فون آیا۔ میری صحت کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ مجھے 10 دن علیحدہ کمرے میں گزارنے ہوں گے۔ جس کے بعد 24 گھنٹوں تک اگر بخار، کھانسی یا سانس کی تکلیف نہ ہو تو میں کمرے سے باہر آسکتی ہوں۔ اور 14 دن قرنطینہ کے بھی پورے کرنا ہوں گے۔ گھر والوں کو بھی ٹیسٹ کرانے کے ساتھ ساتھ 14 دن قرنطینہ میں رہنے کو کہا گیا۔
اس دوران گھر والوں میں سے بھی کوئی باہر نہیں جا سکتا تھا۔ محکمۂ صحت کے اہلکار نے مجھ سے پوچھا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو، دوائیاں، ماسک، ہینڈ سینیٹائزر یا کھانے پینے کی فوری ضرورت کی چیزوں میں سے کچھ چاہیے ہو تو کسی بھی وقت انہیں کال کی جا سکتی ہے۔ اگلی صبح انہوں نے کچھ ضروری اشیا گھر کے باہر چھوڑ دیں۔
میں روزانہ اپنی علامات چیک کرتی اور ریاست ورجینیا کے محکمۂ صحت کی طرف سے بھیجے گئے آن لائن سوال ناموں کا جواب دیتی۔ اس سوال نامے میں 10 سے 12 تشویش ناک علامات درج ہیں۔ مثلاً بخار ہے یا نہیں، سانس ٹھیک آ رہا ہے یا نہیں، کھانسی ہے یا نہیں۔ مریض کو صرف انہی علامات پر کلک کرنا ہوتا جو اسے محسوس ہو رہی ہوں۔ اسی طرح کا سوال نامہ 14 دن تک روزانہ میرے خاندان کے ہر فرد کے نام ای میل کے ذریعے آتا رہا۔
ریاست کے محکمۂ صحت کے پاس میرا نام درج ہو چکا تھا۔ اس لیے انہوں نے میرے دفتر سے بھی رابطہ کیا اور ان تمام لوگوں کو قرنطینہ میں رہنے یا ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کی جن سے میں گزشتہ 10 روز کے دوران ملی تھی۔
اس دوران میرے جسم کا درد کبھی بہت زیادہ ہوتا کبھی کم۔ بخار بھی کبھی ہوتا تھا اور کبھی نہیں۔ کھانسی کا بھی یہی حال رہا۔ سانس بحال تھی۔ لہذا زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ بس نیند کا آنا کم ہو گیا تھا۔ لگتا تھا کہ جسم کئی ٹن وزنی ہو گیا ہے۔ اگر کبھی آنکھ لگ جاتی تو پسینے سے شرابور اٹھتی۔ نہ لیٹا جاتا تھا نہ بیٹھا۔ جسم کا درد ایسا تھا کہ بیان سے باہر ہے۔
امریکہ کے 'سینٹررز فار ڈیزیز کنٹرول' کے مطابق 40 فی صد لوگوں میں کووڈ-19 کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں اور علامات ظاہر ہونے والوں میں سے بھی 20 فی صد لوگوں کی علامات شدید نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ علامات ظاہر ہونے کے بعد پانچویں دن سے لے کر دسویں دن تک کا دورانیہ بہت اہم ہے۔ اگر آپ کی صحت بہتر ہو رہی ہے تو علامات کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ لیکن اگر ساتویں یا آٹھویں دن اپ کی طبیعت بگڑنا شروع ہو جائے تو تشویش کی بات ہے اور آپ کو اسپتال جانا پڑ سکتا ہے۔
دس دن آئسولیشن میں گزارے۔ گیارہویں دن کمرے سے باہر آئی۔ لیکن قرنطینہ کے 14 ابھی ختم نہیں ہوئے تھے لہٰذا باقی کے دن بھی گھر میں ہی گزارے۔
اس ساری روداد کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کووڈ-19 واقعی کوئی مذاق نہیں ہے۔ آپ کی کمزور امیونٹی، آپ کی عمر اور پہلے سے کوئی شدید بیماری کووڈ-19 کی علامات اور شدت میں اضافہ کر سکتی ہے جس کی وجہ سے آپ کو اسپتال بھی جانا پڑ سکتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی گزارش ہے کہ اس مرض کو کو اسٹگما نہ بنائیں۔ اگر کسی کو کووڈ ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اب وہ ہمیشہ رہے گا اور آپ اس سے ملنا جلنا ترک کردیں۔ یہ بیماری اپنا وقت لیتی ہے اور زیادہ تر کیسز میں آپ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔
بس ماسک پہنیں، سماجی فاصلے پر عمل کریں اور اگلے چند مہینے جب تک ویکسین نہیں آ جاتی، احتیاط کریں۔
آج ایک مہینہ ہونے والا ہے۔ میرا ٹسٹ تو اب نیگیٹو آیا ہے لیکن روز رات کو جسم کے درد واپس آجاتے ہیں۔ کبھی سانس بند ہونے لگتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ علامات 'پوسٹ کووڈ سینڈروم' کہلاتی ہیں جو کئی مہینوں تک رہیں گی۔ لیکن وہ 14 دن اس سے زیادہ تکلیف دہ تھے جو میں کبھی نہیں بھولوں گی۔