رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: ’سماعت کے بعد ساتھی اہلکار ایس ایچ او کو سیکٹر کمانڈر کہہ کر چھیڑتے رہے‘


  • اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے بعد آج توقع کی جا رہی تھی کہ لاپتہ شاعر احمد فرہاد بازیاب ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
  • احمد فرہاد کا بازیاب نہ ہونا ریاست کی ناکامی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ
  • جسٹس محسن کیانی نے جب کہا کہ سیکٹر کمانڈر کی حیثیت ایس ایچ او کے برابر ہے تو عدالت میں موجود ایس ایچ او پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے

اسلام آباد__لاپتا شاعر احمد فرہاد کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران جب جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی کی طلب کیا تو عدالت میں ماحول بہت گمبھیر تھا۔

لیکن اس کیس میں پیش ہونے والے لوہی بھیر کے ایس ایچ او کو ان کے ساتھی اس بات پر مبارک باد دے رہے تھے کہ آج عدالت میں انہیں آئی ایس کے سیکٹر کمانڈر کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

جمعے کو احمد فرہاد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو امید کی جا رہی تھی کہ اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے بعد دو ہفتے سے لاپتہ شاعر بازیاب ہو جائیں گے اور انہیں عدالت میں پیش کر دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

آج بھی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس محسن کیانی سے مزید وقت دینے کی درخواست کی۔

گذشتہ سماعت پر جسٹس محسن کیانی نے جس طرح برہمی کا اظہار کیا تھا اس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ آج بھی اسی طرح کے سخت ریمارکس سننے کو ملیں گے۔ تاہم اس بار جسٹس محسن کیانی نے برہمی کا اظہار تو نہیں کیا البتہ کئی معنی خیز ریمارکس دیے۔

شروع میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں کال ریکارڈز کی تفصیلات(سی ڈی آرز) ملی ہیں اور انہیں ٹریس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ احمد فرہاد کے موبائل کی لوکیشن مالم جبہ کے علاقہ کی آئی ہے اور وہاں ٹیم بھجوا دی گئی ہے۔

جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ آئی ایس آئی کس کو جوابدہ ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئی ایس آئی وزیراعظم کے ماتحت ہے جس پر جسٹس کیانی نے کہا کہ پھر تو معاملہ بہت آسان ہو گیا، سیدھا وزیراعظم کو طلب کر کے پوچھ لیتے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ احمد فرہاد کا بازیاب نہ ہونا ریاست کی ناکامی ہے۔ یہ صرف ایک آدمی کی ریکوری کی بات نہیں بلکہ پوری قوم کی ریکوری کا معاملہ ہے۔ بندہ برآمد کرنا کوئی حل نہیں بلکہ وہ لیگل فریم ورک بنانا ضروری ہے۔

سماعت کی تفصیلات ٹی وی پر نشر نہیں ہوئیں

اس دوران کمرۂ عدالت میں موجود سینئر صحافی حامد میر روسٹرم پر آئے اور انہوں نے پیمرا کی طرف سے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا معاملہ اٹھایا۔

حامد میر نے جسٹس محسن کیانی سے بات کرنے کی اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر کہا کہ آپ کی گذشتہ سماعت کی رپورٹنگ کے بعد وزیرِ قانون نے پریس کانفرنس کی تھی اور اس کے بعد پیمرا نے نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔

اس پر جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ میرے لیے وہ نوٹی فکیشن کچھ نہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم عدالتی کارروائی لائیو نشر کریں گے۔

حامد میر نے کہا کہ ہم خوش تھے کہ اداروں کے درمیان کچھ سیٹلمنٹ ہونے والی ہے لیکن حکومت نے پیمرا کے ذریعے میڈیا کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔

انہوں نے جسٹس کیانی سے سوال کیا کہ عدالت نے آج جو باتیں پوچھی ہیں کیا ہم وہ چلا سکتے ہیں۔ اس پر جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ آپ بالکل چلا سکتے ہیں۔

جسٹس محسن کیانی نے تو عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے کی اجازت دے دی لیکن کسی بھی نیوز چینلز نے جسٹس محسن کیانی کی عدالت کی کارروائی نشر نہیں کی۔

بیش تر ٹی وی چینلز نے صرف سماعت ہونے کی خبر دی اور ساتھ ہی عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ سے متعلق پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے بتا دیا کہ مزید تفصیلات نشر نہیں کی جائیں گی۔

سیکٹر کمانڈر اور ایس ایچ او

سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ اگر پولیس کے پاس تھانے میں کوئی شخص ہو اور پولیس اس کے تحویل میں ہونے سے انکار کر دے تو اس کا کیا ازالہ ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس پر 10 سال قید کی سزا ہے۔

جسٹس کیانی نے سوال کیا کہ آپ نے کبھی کسی ایجنسی اہل کار کو اس طرح پراسیکیوٹ کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس محسن کیانی نے جب سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تو ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سیکٹر کمانڈر کی حیثیت ایس ایچ او کے برابر ہے۔

اس پر قریب کھڑے ایس ایچ او تھانہ لوہی بھیر پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ جب سماعت ختم ہوئی تو ان کے ساتھی پولیس اہلکار انہیں سیکٹر کمانڈر صاحب کہہ کر چھیڑ رہے تھے۔ ایس ایچ او یہ سن کر مسکراتے ہوئے عدالت سے باہر نکل گئے۔

پیمرا کو نوٹی فکیشن اور چینل کا نوٹس

سماعت کے بعد میڈیا سے متعلقہ افراد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کے خلاف اجتجاج بھی کیا اور کہا کہ اس پابندی کے ذریعے صرف صحافیوں نہیں بلکہ عدلیہ پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

پیمرا کی پابندی کے بعد عدالتی رپورٹنگ کرنے والے چینلز کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔ یہ معاملہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے اور چیف جسٹس عامر فاروق متعلقہ حکام کو اس پر نوٹسز جاری کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا کو چینلز کو دیے گئے شوکاز نوٹسز پر کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی سے روک دیا ہے لیکن پیمرا کا نوٹی فکیشن معطل نہیں کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صحافی اور میڈیا چینلز اب بھی بے یقینی کا شکار ہیں کہ پیمرا کے نوٹی فکیشن کی موجودگی میں عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کیسے کی جائے؟

ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ایک صحافی دوست نے کہا کہ چیف جسٹس نے صرف نوٹسز کیے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو دفتر والوں نے ایک ماہ دیکھ کر ہمیں ملازمت سے فراغت کا نوٹس ضرور دے دینا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG