ریبلیکن پارٹی کے 11 اور ڈیموکریٹک پارٹی کے دو ارکان نے کہا ہے کہ وہ آئندہ سال امریکی ایوانِ نمائندگان کا دوبارہ انتخاب نہیں لڑیں گے۔
ریپبلیکن پارٹی کے روب بشپ، جن کا تعلق یوٹا سے ہے؛ جارجیا کے روب ووڈل، انڈیانا کی رکن سوزن بروکس؛ پال مچیل (مشیگن)،، مارتھا روبی (الاباما)، جب کہ ٹیکساس سے چار ارکان پیٹ اولسن، مائیک کوناوے، وِل ہرڈ اور کینی مرچنٹ شامل ہیں۔
ادھر، اخباری اطلاعات کے مطابق، ڈیموکریٹک پارٹی کے ایوانِ نمائندگان کے ارکان جو اگلے انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتے، ان کے نام ہیں نیو یارک سے جوز سرانو اور آئیوا سے دیو لبسیک۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی سیاست میں ڈھائی سو سال پر محیط اعلیٰ جمہوری اقدار اور روایتوں کی پاسداری، معاملہ فہمی اور برداشت کے قابل تقلید اصولوں کی آبیاری میں فقدان نمایاں ہے۔ اور یہ کہ، مختلف اسباب کی بنا پر سیاست میں ابتری عام ہونے لگی ہے۔
سال 2016ء کے صدارتی انتخابات کے بعد سے جن مسائل و امور پر گرما گرم بحث مباحثہ جاری رہا ان میں پچھلے انتخابات میں مبینہ روسی سازش کا عنصر اور ان مبینہ ہتھکنڈوں کے تفتیش کا معاملہ؛ امیگریشن، اقلیتیں، خواتین کے حقوق، ہیلتھ کیئر، میکسیکو کے ساتھ سرحدی دیوار کے لیے رقوم مختص کرنے کے معاملے میں پیش رفت کا فقدان اور مجوزہ بجٹ کی منظوری میں تاخیر اور شٹ ڈاؤن کا خطرہ لاحق رہا۔
پچھلے تین سالوں کے دوران وفاقی بجٹ میں خاص طور پر امریکہ کی جنوبی سرحد پر غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے مجوزہ دیوار کی تعمیر کے معاملے پر درکار رقوم مختص کیے جانے پر سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ارکان کے مابین بیانات کی سخت لے دے اور مخالفت عروج پر رہی۔ اس حد تک کہ کئی بار سرکاری کاروبار کو شٹ ڈاؤن کا سامنا رہا۔
اس سے قبل، ریپبلیکن پارٹی کے الاباما کےایوان نمائندگان کے رکن بریڈلی برن جب کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے نیو میکسیکو کے نمائندے، بین ریلجان نے غیر انتخابی عہدے قبول کرنے کو ترجیح دی۔
ادھر، ریپبلیکن پارٹی کے چار ایسے ارکان تھے جنھوں نے ایوان سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ان کے نام ہیں پنسلوانیا سے ٹام مرینو؛ نارتھ کرولینا سے والٹر بی جونز؛ وسکونسن سے شان ڈفی اور جارجیا سے جانی ازاکسن ۔
امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخابات تین نومبر، 2020ء کو ہوں گے۔ انہی انتخابات کے دوران سینیٹ کی 33 جب کہ ایوان نمائندگان کی 435 نشستوں میں سے ڈیموکریٹ پارٹی 12 نشستوں کے لیے جب کہ ریپبلیکن پارٹی 22 سیٹوں پر انتخاب لڑے گی۔
ادھر، ڈیموکریٹ پارٹی میں صدارتی امیدواروں کی بھرمار ہے، جن کی تعداد 20 تک جا پہنچی ہے۔ متمنی امیدواروں کے آپسی بحث و مباحثے کی ابتدا ہو چکی ہے۔