پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم افغان پناہ گزینوں کی باعزت اور رضا کارانہ وطن واپسی کے معاہدے پر عمل پیرا ہے لیکن وہ دیگر متعلقہ اداروں اور حکومتوں سے اس عمل کو تیز کرنے پر زور دیتا ہے۔
تقریباً 30 لاکھ افغان پناہ گزین گزشتہ تین عشروں سے پاکستان میں مقیم ہیں جن میں سے لگھ بھگ 17 لاکھ کا باقاعدہ اندراج کیے جانے کے بعد انھیں ملک میں 31 دسمبر 2015ء تک رہنے کی اجازت ہے جب کہ بقیہ بغیر قانونی دستاویزات کے رہ رہے ہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرحدی امور کے وفاقی وزیرعبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت کا اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین، ایران اور افغانستان کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت آئندہ سال کے اواخر تک ان پناہ گزینوں کی وطن واپسی ہونی ہے اور ان کے بقول حکومت کسی بھی طرح اس میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ اداروں اور حکومتوں سے ہونے والی بات چیت میں انھوں نے واپسی کے عمل میں تیزی پر زور بھی دیا ہے کیونکہ 31 دسمبر 2015 تک کا عرصہ مکمل ہونے میں کوئی اتنا زیادہ وقت باقی نہیں۔
"ان (افغانستان) کے صدر سے بھی میری بات ہوئی تھی۔۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ اگلے دسمبر تک کا عرصہ کوئی اتنا دور نہیں ہے تو اس عمل کو تیز کریں۔"
ملک میں دہشت گردانہ واقعات اور منظم جرائم کے تناظر میں اکثر افغان پناہ گزینوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے بعض حلقوں کی جانب سے انھیں پاکستان نے واپس بھیجنے کا معاملہ بھی اٹھایا جاتا رہا ہے جب کہ گزشتہ منگل کو پشاور میں اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے خیبر پختونخواہ کی حکومت نے بھی پیر کو مطالبہ کیا تھا کہ ان پناہ گزینوں کو فوری طور پر افغانستان بھیج دیا جائے۔
لیکن وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی دہشت گردی کے کسی واقعے میں ملوث ہونے کی اطلاع ان کے پاس نہیں ہے اور جو افغان باشندے غیر قانونی طور پر ملک میں رہ رہے ہیں اکثر ان کے خلاف قانونی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔