پاکستان ٹیلی ویژن کے درجنوں سندھی اور اردو ڈراموں اور فلموں کو اپنی عمدہ اداکاری سے مہکانے والا گلاب چانڈیو مرجھا گیا۔ ذیابیطیس اور ہائی بلڈ پریشر نے رواں ہفتے ان گنت چاہنے والوں سے ڈراموں کا ایک بڑا فن کار اور ایک نفیس انسان چھین لیا۔
گلاب چانڈیو نے 61 سال کی عمر پائی اور جمعے کی سہ پہر 3 بجے اس دنیا سے کوچ کیا۔
وہ پچھلے دو روز سے کراچی کے ایک اسپتال میں داخل تھے جہاں سے ان کی میت ان کے آبائی علاقے شہمیر چانڈیو، نواب شاہ لے جائی گئی ۔ گلاب چانڈیو نے اسی گاؤں میں 6 جنوری 1958ء کو آنکھ کھولی تھی اور وہ یہیں دفن ہوئے۔
انہیں 2016ء میں ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر 'صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی' دیا گیا تھا۔
گلاب چانڈیو نے سندھی زبان کے ساتھ ساتھ اردو ڈراموں میں بھی کام کیا۔ 'چاند گرہن' ان کا ایک بہت مشہور ڈرامہ تھا جب کہ ’نوری جام تماچی‘ میں بھی ان کے کردار اور اداکاری کو شاید کبھی بھلایا نہ جاسکے۔
اس کے علاوہ جو لازوال ڈرامے ان کے کریڈیٹ پر رہے ان میں بے وفائیاں، ماروی، سانس، سانس لے اے زندگی اور ساگر کا موتی شامل ہیں۔
ان ڈراموں میں سے کئی ایک میں انہوں نے نگیٹیو رولز بھی کیے لیکن حقیقی زندگی میں وہ ایسے نہیں تھے۔
گلاب چانڈیو کے عروج کے دور میں پی ٹی وی کراچی سینٹر سے وابستہ رہنے والے پروڈیوسر محمد عباس لاشاری کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ گلاب چانڈیو ان حقیقی فن کاروں میں سے ایک تھے جنہیں اداکاری قدرت کے عطیے کے طور پر ملی تھی۔ انہوں نے کہیں سے کوئی تربیت نہیں لی بلکہ ڈرامہ اسکرین پر وہ کچھ پیش کیا جو زندگی میں ان کا مشاہدہ رہا۔
ان کے بقول خداداد صلاحیتوں کے حام فن کاروں کی ایک دور میں پوری کھیپ ہوا کرتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب ایسے فنکار نایاب ہوتے جا رہے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ایسے فن کاروں کی آمد پر اب 'فل اسٹاپ' لگ گیا ہے۔
عباس لاشاری کے بقول گلاب چانڈیو شاید ایسے فن کاروں کی آخری نسل سے تھے۔ اب خال خال ہی ایسے فن کار دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں اداکاری قدرت نے بطور تحفہ دی ہو۔