رسائی کے لنکس

داعش کے خلاف قابل ذکر پیش رفت: امریکی نمائندہ خصوصی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

جنرل (ریٹائرڈ) جان ایلن نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران داعش کے خلاف اتحاد نے غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد اور ان کو پیسوں کی ترسیل روکنے، داعش کے نفرت کے پیغام کا مقابلہ کرنے اور جنگ سے پیدا ہونے والے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔

داعش کے خلاف عالمی اتحاد کے لیے امریکہ خصوصی نمائندہ (ریٹائرڈ) جنرل جان ایلن نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران داعش کے خلاف قابل ذکر پیش رفت‘‘ کی گئی ہے۔

تاہم جان ایلن نے یہ بھی کہا کہ شام میں پانچ سال سے جاری جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی اور پناہ گزینوں کے بحران کو فوجی برتری کی بجائے صرف ایک سیاسی حل ہی ختم کر سکتا ہے۔

جان ایلن نے ’اے بی سی‘ چینل کے پروگرام ’دِس ویک‘ میں کہا کہ جب انہوں نے ایک سال قبل اپنا عہدہ سنبھالا تھا تو انہیں یقین نہیں تھا کہ عراق داعش کی ابتدائی کامیابیوں سے نبردآزما ہو سکے گا۔

’’اُس وقت سے اب تک کئی ماہ کے دوران ہم نے کئی پہلوؤں پر قابل ذکر پیش رفت دیکھی ہے۔ ہم نے بغداد میں ایک باصلاحیت رہنما اور ساتھی حیدر العبادی کو ابھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے قومی منصوبے، سنیوں کے ساتھ بات چیت، انبار صوبے کے لیے منصوبے اور ان کے گرینڈ آیت اللہ علی سیستانی کے ساتھ قریبی تعلقات سے ہمیں امید بندھی ہے کہ وہ عراق کے سیاسی مستقبل میں اپنا کردار ادا کریں گے جو ہمیں کسی دوسرے رہنما میں پہلے نہیں نظر آیا۔ ایک سیاسی پلیٹ فارم اور سیاسی حل کے بغیر اس مسئلے سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ چاہے ہم فوجی طور پر کچھ بھی کر لیں ہم مجموعی طور پر اس بحران کو حل نہیں کر سکتے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران داعش کے خلاف اتحاد نے غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد اور ان کو پیسوں کی ترسیل روکنے، داعش کے نفرت کے پیغام کا مقابلہ کرنے اور جنگ سے پیدا ہونے والے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔

شام میں امریکہ کے سابق سفیر رابرٹ فورڈ نے ایک علیحدہ انٹرویو میں کہا کہ پناہ گزینوں کا بحران داعش کے قبضے میں علاقوں سے نہیں پیدا ہوا بلکہ صدر بشار الاسد کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں بیرل بموں کے استعمال سے پیدا ہوا ہے جس سے شہر کے شہر خالی ہو گئے ہیں۔

’’آدھا شام اب بے گھر ہے۔ شام کی آدھی آبادی اپنے گھروں میں نہیں رہ رہی۔‘‘

فورڈ نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کی توجہ اس بحران کی اصل ذمہ دار اسد حکومت کی بجائے داعش کی طرف ہے۔

’’اسد حکومت کا ظلم و ستم لوگوں کو داعش میں بھرتی ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ ہمیں ابھی امریکہ کی انٹیلی جنس رپورٹ ملی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ داعش ہماری بمباری سے مرنے والے تمام جنگجوؤں کی جگہ نئے جنگجو بھرتی کر رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ وہ شام کے ناراض نوجوانوں کو بھرتی کرنے میں کامیاب ہے جو اسد حکومت کی شہری علاقوں پر بمباری سے شدید غصے میں ہیں۔‘‘

گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا تھا کہ داعش نے گزشتہ سال عراق کے جس آباد علاقے پر قبضہ کیا تھا اس کا 30 فیصد اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی شام میں واقع 17,000 مربع کلومیٹر سے زائد علاقہ بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہ شام اور ترکی کی سرحد کے وسیع علاقے سے کٹی ہوئی ہے۔

جان ایلن نے کہا کہ شام کی خانہ جنگی فوجی کارروائیوں سے کبھی ختم نہیں ہو گی بلکہ صرف سیاسی حل سے اس کا خاتمہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بشارالاسد سے اقتدار کی منتقلی ہونی چاہیئے اور وہ کسی بھی سیاسی حل کا حصہ نہیں بن سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ شام میں حرب مخالف کے اراکین کو فوجی اور سیاسی طور پر بااختیار بنانا اہم ہے تاکہ وہ علاقوں کا قبضہ واپس لے سکیں اور مستقبل میں سیاسی حل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

XS
SM
MD
LG