پاکستانی کشمیر کے دور دراز گاؤں ڈھاکہ چکوٹھی میں قائم پرائمری اسکول کی عمارت 2005 کے زلزلے میں تباہ ہوگئی تھی جس کی تعمیر کا کام زلزلے کے بیت جانے کے بعد بھی شروع نہیں ہو سکا ۔
اس گاؤں کے بچے ایک بوسیدہ خیمے میں قائم اس سرکاری سکول میں علم حاصل کرتے ہیں۔
اسکول کے ایک استاد محمد بشارت شیخ نے بتایا کہ بیس کے قریب بچے تو خیمے میں بیٹھ سکتے ہیں جبکہ باقیوں کو شدید سردی اور گرمی کے دنوں میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنا پڑتا ہے ۔
ڈھاکہ چکوٹھی کی طرح پاکستانی کشمیر کے سینکڑوں ایسے دیہات ہیں جہاں زلزلے میں تباہ ہونے والے اسکولوں کی تعمیر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے ہزاروں بچے اب بھی اسکولوں کی عمارتوں کی تکمیل نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے یا بوسیدہ خیموں اور عارضی شیلٹرز میں موسمی شدت کے باوجود تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جس کے باعث بچوں کا تعلیمی حرج بھی ہو رہا ہے۔
پاکستانی کشمیر کے حکام کا کہنا ہے کہ اسکولوں کی عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔
پاکستانی کشمیر کی حکومت کے چئیرمین معائینہ و عملدرآمد کمشن زاہد امین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے نامکمل ہیں اور سینکڑوں ایسے ہیں کہ جنکی تعمیر کا کام ابھی تک شروع ہی نہیں کیا جا سکا ۔
زاہد امین زلزلے سے بحالی و تعمیر نو کے وفاقی ادارے ایرا ERRA بورڈ کے ممبر بھی ہیں ۔
انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں کی تکمیل کے لیے متاثرین کی بحالی کے لیے دی جانے والی رقم سیر SERRAکو دی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی فنانس ڈویژن قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو بتا چکا ہے کہ وہ زلزلہ متاثرین کے 88 ارب دوسرے منصوبوں میں خرچ کر چکا ہے۔
پاکستانی کشمیر کی زلزلے سے بحالی و تعمیر نو ایجنسی سیرا کے سربراہ فاروق تبسم کا کہنا ہے کہ اگر مطلوبہ فنڈز مہیا کر دیئے جائیں تو سینکڑوں اسکولوں سمیت تمام منصوبے دو برس میں مکمل کر لیے جائیں گے ۔
انہوں نے بتایا کہ سیرا فنڈز کی کمی کے باوجود گزشتہ ایک برس میں 73 تعلیمی ادارے مکمل کر چکا ہے ۔
پاکستانی کے زلزلہ زدہ علاقوں میں کل 2798 اسکول تعمیر کیے جانے تھے جن میں سے اب تک ساڑے چودہ سو کی تعمیر مکمل ہو سکی ہے۔
زلزلے سے بحالی و تعمیر نو کے ادارے کے مطابق زلزلہ سے متاثرہ سات اضلاع (مظفرآباد، ہٹیاں، نیلم ، باغ،حویلی، پونچھ اور سدھنوتی) میں بحالی و تعمیر نو کے کل 7742منصوبوں پر کام کا آغاز کیا گیا جن میں یعنی 70 فیصد مکمل ہو چکے ہیں اور 1385 یعنی 18 فیصد پر کام جاری ہے جبکہ مالی مشکلات کے باعث بقیہ 903 یعنی 12 فیصد پر کام شروع ہی نہیں ہو سکا۔
تعلیم کے شعبہ میں67 ارب 79 کروڑ روپے کی لاگت سے 2798 اداروں کی تعمیر نو کی جانی ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 1468ادارہ جات مکمل ہوچکے ہیں اور657 پر کام جاری ہے ۔
مواصلات کے شعبہ میں 33 ارب 38 کروڑ کی لاگت سے 137 منصوبوں کو مکمل کیا جانا ہے جن میں سے131 منصوبے مکمل کیے جاچکے ہیں۔ پانچ منصوبوں پر کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
سیرا کے سیکرٹری فاروق تبسم کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ منصوبوں کی تکمیل کے لیے 38 ارب روپے درکار ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رکھنے اور نئے منصوبوں پر کام کے آغاز کے لیے سالانہ 14 ارب روپے کی ضرورت ہے جبکہ اس کے برعکس گزشتہ چند برسوں سے ایک ارب کے قریب رقم فراہم کی جارہی ہے ۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتہائی پسماندہ ضلع حویلی میں 248 سکول زلزلہ میں تباہ ہوئے اور 13 سال کے عرصہ میں صرف 40 کی تعمیر نو کا کام مکمل ہوا جبکہ 208 کی عمارات نہ بن سکیں۔
فنڈز کی کمی کی وجہ سے تعمیر نو کا عمل سست روی کا شکار ہے جبکہ ایرا کی طرف سے پاکستانی کشمیر کی حکومت کو تعمیر ی منصوبے اپنے وسائل سے مکمل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ تاہم پاکستانی کشمیر کی حکومت کے بعض عہدیدار اور سیاسی راہنما وفاقی وزارت خزانہ سے زلزلہ متاثرین کے فنڈز مبینہ طور پر دوسرے منصوبوں میں خرچ کیے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے انکی واپسی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلے کے بعد تعمیر نو کیلئے قائم کیا جانے والا ادارہ ای آر آر اے عجلت میں قائم کیا گیا اور اس میں جو عملہ رکھا گیا، وہ اتنے بڑے پیمانے کے کام کیلئے مکمل طور پر تربیت یافتہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ادارے میں بدانتظامی کے باعث تعمیر نو کے اہداف وقت پر پورے نہ کئے جا سکے۔
8 اکتوبر 2005 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں آنے والے7.6 شدت کے زلزلے سے 75 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔ متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے پاکستان کی اپیل پر عالمی برادری نے چھ ارب ڈالر مہیا کیے تھے ۔