رسائی کے لنکس

بائیڈن انتظامیہ کی نئی پالیسی مہاجرین کی آبادکاری میں کیا آسانیاں پیدا کرے گی؟


امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی جو ایگزیکٹو آرڈر جاری کئے ہیں، ان میں امریکہ کی امیگریشن پالیسی کو از سرنو ترتیب دینے کا معاملہ بھی شامل ہے، جس کے تحت دنیا بھر سے امریکہ آنے والے مہاجرین کے پروگرام کی توسیع دی جائے گی۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں مہاجرین کی امریکہ میں آبادگاری کے حوالے پالیسی میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس لینے کے لئے وقت اور وسائل دونوں درکار ہونگے۔ یاد رہے کہ سابق انتظامیہ کے دور میں امریکہ میں آکر آباد ہونے والے مہاجرین کی تعداد حالیہ عشروں میں کم ترین سطح تک محدود کردی گئی تھی۔

رواں سال اکتوبر سے امریکہ نے ہر سال ایک لاکھ پچیس ہزار مہاجرین کو قبول کر نے کا ہدف طے کیا ہے۔ یہ تعداد ٹرمپ دور کے اواخر تک قائم رہنے والی پندرہ ہزار مہاجرین کی حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نئے اقدام سے عبدالرزاق نور ابراہیم جیسے مشکلات کا شکار مہاجرین کی زندگیوں میں بہتری آسکے گی۔

صومالیا سے تعلق رکھنے والے ابراہیم 2004 میں جنگ سے دوچار ملک موگادیشو سےفرار ہو کر کینیا کے شہر نیروبی پہنچے تھے۔ انہیں اور ان کے خاندان کو 2017 کے اوائل میں امریکہ آکر آباد ہونے کی منظوری دی گئی تھی۔
لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے صومالیا سمیت کئی اکثریتی مسلم ممالک سے آنے والے افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد ہونے کے بعد ابراہیم کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔۔

ابراہیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس فیصلے نے ان کا دل توڑدیا لیکن وہ اس بارے میں بے بس تھے اور امریکہ آنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ تب سے ابراہیم کینیا ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن اب امریکہ میں انتظامیہ میں تبدیلی کے ساتھ وہ پر امید محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بلاخر امریکہ آنے دیا جائے گا۔

مہاجرین کے حقوق کے علمبردار کہتے ہیں کہ زیادہ تعداد میں مہاجرین کو امریکہ آنے کی اجازت دینا کافی نہیں ہوگا۔

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے کمیونیکیشنز افسر کرسٹوفر بویان کا کہنا ہے کہ کروناوائرس کی عالمی وبا نئے ہدف کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ پروگرام کی تکمیل کے ٓاضافی اخراجات کے لیے رقوم اور مزید افرادی قوت کی بھی ضرورت ہو گی۔

پروگرام کو پھرسے قائم کرنے کا وقت آگیا ہے

مہاجرین کی امریکہ میں آباد کاری کے لیے متحرک مذہبی گروپ کہتے ہیں کہ نئے احکامات کے تحت پروگرام کو راتوں رات ازسر نو قائم نہیں کیا جاسکتا۔

ایسے ہی ایک ادارے لوتھیرین امیگریشن اینڈ ریفیوجی سروس کی سربراہ کرش او مارا وگنا راجہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام کو بنیادی سطح سے پھر سے استوار کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ چار سالوں میں امیگریشن کے محکمے سے برخواست کئے جانے والے ملازمین کو پھر سے اس کام میں شامل کرنا ہوگا، اور اس ضمن میں مقامی، ریاستی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ مل کر بند پڑے دفاتر کو پھر سے فعال کرنے کے لیے اجازت نامے حاصل کرناہوں گے۔

مہاجرین کے لیے کام کرنے والی تنظیم ریفیوجی انٹرنیشنل میں امریکی وکیل ییل شاگر کے مطابق دسمبر 2020 تک امریکی شہریت اور امیگریشن کے ادارے یو ایس سی آئی ایس نے 35 ہزار مہاجرین کو امریکہ میں داخلے کی منطوری دی تھی۔ اور ان میں سے ایک ہزار روانگی کے لیے تیارتھے۔

امریکہ میں صدر اکتوبر سے شروع ہونے والے نئے مالی سال سے پہلے مہاجرین کے ملک میں آنے کی تعداد مقرر کرتا ہے جس کے بعد اس منصوبے کو کانگرس کی نظرثانی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق سن 2020 میں گیارہ ہزار آٹھ سو 14 مہاجرین امریکہ آئے تھے۔

شاگر کہتی ہیں کہ گزشتہ سالوں میں صرف مہاجرین کی آباد کاری کی رفتار میں کمی ہوئی ۔ امریکہ میں آباد ہونے کے بعد مہاجرین کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے دوسرے افراد کو بھی یہاں لا سکتے ہیں، لیکن ٹرمپ انتظا میہ کے دور میں اس طریقہ کار کے تحت چلنے والے کیسز پر پیش رفت کی رفتار آہستہ کر دی گئی تھی۔

امریکہ میں مہاجرین کی آباد کاری پر کام کرنے والی نو غیر سرکاری تنظیموں میں سے ایک تنظیم ایچ آئی اے ایس کی سینئر ڈائریکٹر الیشا رین کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم نے اپنے ساتھیوں کے نیٹ ورک کو وسیع کرنا شروع کردیا ہے تاکہ نئے آنے والے مہاجرین کی مدد کی جاسکے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ خصوصی مہارت سے سرانجام دینے والا کام ہے کیونکہ اس شعبے میں کام کرنے والوں کو مختلف زبانوں میں لوگوں سے بات کرنے کی صلاحیت کا حامل ہونا ہوتا ہے، انہیں مہاجرین کی ثقافت سے آگہی، اور تکلیف دہ مراحل سے گزر کر آنے والے مہاجرین کی مدد کرنے کی اہلیت کا حامل ہونا ہوتا ہے۔

مہاجرین کی ویٹنگ یا چھان بین کا طریقہ کار

ٹرمپ دور کی پالیسیوں کے حامی امیگریش قوانین میں ان کے دور میں کی جانے والی تبدیلیوں کو یکسر ختم کرنے کے معاملے پر خبردار کرتے ہیں کہ مہاجرین کی تعداد میں کمی اور بقیہ آنے والے افراد کے ماضی کے ریکارڈ اور سلامتی کے حوالے سے ان کے متعلق معلومات کی کڑی جانچ پڑتال کرنے کا مقصد امریکہ کو محفوظ بنانا تھا ۔

واشنگٹن میں قائم قدامت پسند تھنک ٹینک ہیری ٹیج فاونڈیشن کی تحقیق کار لارا ریس کہتی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں متعارف کیے گئے تصدیق کے عمل کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ آنے والی تمام حکومتوں کو اسے جاری رکھنا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ محض اس بات پر کہ اس پالیسی کے ساتھ سابق صدر ٹرمپ کا نام جڑا ہوا ہے، اسے یکسر ختم کرنا درست نہیں۔

صدر بائیڈن نے اس سلسلے میں اپنے ایگزیکیٹو آرڈر میں ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکرٹری سے کہہ رکھا ہے کہ وہ مہاجرین کے ماضی کی تصدیق کو وسیع کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کریں۔ ایسے طریقہ کار میں آڈیو اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ مہاجرین کے انٹرویو کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔ اس طریقہ کار کو چلانے کے لیےسہولیات کے قیام کی اجازت بھی ہو گی۔

کارکن وگنا راجہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں مہاجرین کی تفصیلی چھان بین کا عمل جاری رہے گا، اگرچہ ان کا شمار بہت ہی کم درجہ کے خطرات میں ہوتاہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ دعوی کہ مہاجرین مجرم یا دہشت گرد ہوتے ہیں، درست نہیں ہے اور یہ کہ امریکہ میں پیدائشی شہریوں کے مقابلے میں مہاجرین بہت کم جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس کے باوجودٹرمپ انتظامیہ نے تصدیق کے عمل میں مزید مراحل کو شامل کیا جن کا، ان کے بقول، کوئی جواز نہیں بنتا۔

اس ماہ کے شروع میں گلوبل ڈیٹا انٹیلی جنس کمپنی مارننگ کنسلٹ اور صحافتی ادارے پولیٹیکو کی جانب سے 1986 رجسٹرڈ ووٹروں سے کیے گئے ایک مشترکہ سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے تین ری پبلیکن جماعت کے حامی امریکی شہری مہاجرین کی تعداد کو ایک لاکھ پچیس ہزار تک بڑھانے کے مخالف ہیں جبکہ 61 فیصد ڈیموکریٹس اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ ان میں سے 33 فیصد بھر پور انداز میں اس اضافے کے حامی ہیں۔

جیسے جیسے بائیڈن انتظامیہ مہاجرین کے حوالے سے پالیسی کو آگے بڑھائے گی، کینیا میں موجود عبد الرزاق ابراہیم امید کرتے ہیں کہ ان کی غیر یقینی کی کیفیت ختم ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG