رسائی کے لنکس

افغان امریکی الزمات اور پاکستان


افغان امریکی الزمات اور پاکستان
افغان امریکی الزمات اور پاکستان

پاکستانی اداروں کے حقانی نیٹ ورک سے مبینہ رابطوں کے حوالے سے امریکی عہدے داروں کے تحفظات کے باوجود بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر کے ایک ماہر مائیکل کوگل مین کا کہناہے کہ میں فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی آتے نہیں دیکھ رہا ۔ کم از کم اس وقت تک جب تک افغانستان کے حوالے سے دونوں ملکوں کی موجودہ حکمت عملی قائم رہتی ہے، جو میرے خیال میں اگلے چند ماہ،اور چند برسوں تک ایسے ہی رہے گی۔

لیکن طالبان سے جاری مصالحتی عمل کی قیادت کرنے والے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں پیدا ہونےو الا تناؤابھی اپنی جگہ موجود ہے ۔ صدرکرزئی اور افغان عہدیداروں کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردوں سے تعلق کے الزامات اور پاکستان کی جانب سے بار بار ان کی پر زور تردیدکا سلسلہ جاری ہے ۔ اور ماہرین افغانستان میں استحکام کے لئے پاک افغان تعلقات کی بہتری کو انتہائی اہم قرار دیتے ہیں ۔

کوگل مین کہتے ہیں کہ امریکی کانگرس کے کئی اراکین کی خواہش ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا ءکے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے، خواہ افغانستان میں زمینی حقائق کچھ بھی ہوں۔ امریکہ کے ایک سابق سفیرہاورڈ شیفر کہتے ہیں کہ صدر اوباما فوج کے انخلا ءکےلیے طے کی گئی تاریخ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

امریکی فوج کے انخلا ءسے پہلے افغانستان میں مصالحت کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ لیکن اس ماہ ایک انٹرویو کے دوران حقانی گروپ کے سربراہ سراج حقانی نے کہا کہ جنگجو گروپوں سے حقانی نیٹ ورک کو الگ ہونے پر آمادہ کرنے کےلیے امریکی انٹیلی جنس اداروں کا ان سے رابطہ کرنا محض جنگجوگروپوں میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ مائیکل کوگل مین کے مطابق یہ ممکن ہے کہ افغان سیاسی عمل کی جانب حقانی کا یہ رویہ حقانی گروپ میں اندرونی اختلافات کی نشاندہی کرتا ہو۔ ان کا کہناہے کہ یہ ابھی واضح نہیں کہ حقانی نیٹورک مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار ہے یا نہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ گروپ کے بعض اراکین کو مذاکرات میں دلچسپی ہے لیکن کچھ دوسرے سخت نظریات کے حامل لوگ ، خصوصاگروپ کے بعض اعلی عہدے داروں کو مذاکرات میں زیادہ دلچسپی نہیں ۔

امریکی عہدے دارپچھلے کئی دنوں سے پاکستان کے حقانی نیٹ ورک سے مبینہ تعلقات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن واشنگٹن میں تمام تجزیہ کار اس بات سے متفق نہیں۔

اٹلانٹک کونسل کے تجزیہ کار شجاع نواز کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اگر چاہے بھی وہ اس گروپ پر کنٹرول نہیں کرسکتا۔ اس لیے کیونکہ وہ صرف شمالی وزیرستان میں نہیں، بلکہ وہ افغانستان کے تین صوبوں میں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ خوش فہمی ہو پاکستان کی اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کنٹرول ہو۔

شجاع نواز کہتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دنوٕں میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایڈمرل مائیک ملن کے بیان سے فاصلہ اختیار کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ امریکہ کی نئی فوجی قیادت کوپاکستان کی فوجی قیادت سے از سر نو تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG