پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے افغانستان پر زور دیا ہے کہ رواں ہفتے کابل میں ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی بجائے افغانستان اس واقعہ کے شواہد اسلام آباد کو فراہم کرے تاکہ ان کے مطابق ضروری اقدامات کیے جا سکیں۔
کابل کے ایک وسطی علاقے وزیر اکبر خان میں بدھ کو ہونے والے مہلک بم دھماکے میں کم ازکم 90 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
افغان انٹیلی جنس ایجنسی (این ڈی ایس) اور بعض حلقوں نے اس کا الزام افغان طالبان کے ایک دھڑے 'حقانی نیٹ ورک' پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی۔
پاکستان ان دعوؤں کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سرتاج عزیز نے کہا کہ الزام تراشی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہیں اور اگر کابل کے پاس شواہد ہیں تو پاکستان کو ان سے آگاہ کیا جائے۔
" پاکستان نے پہلے ہی کابل میں ہونے والے سفاکانہ حملے پر افسوس کا اظہار کیا اور اس کی مذمت کی ہے جس میں بہت ساری قیمتی جانیں ضائع ہوئیں بہت لوگ زخمی ہوئے اور اس میں پاکستان کے سفارت خانے کے دو مکانات کو بہت شدید نقصان پہنچا۔ اس میں ہمارا بنیادی موقف یہ ہے کہ افغان حکام اس واقعہ کے بارے میں کوئی بھی شواہد ہیں تو ان سے پاکستان کو آگاہ کریں تک ہم ضروری اقدامات کر سکیں۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے دہشت گرد گروپوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
" ہم کافی دفعہ اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ پاکستان نے بڑی محنت کے بعد آپریشن ضرب عضب کے ذریعے قبائلی علاقوں میں جتنے دہشت گرد نیٹ ورک تھے ان کو تباہ کر دیا ہے اور جو لوگ ملک کےدوسرے حصوں میں منتقل ہو گئے تھے آپریشن رد الفساد کے ذریعے ان کا صفایا کیا گیا ہے۔"
سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ اس کے باوجود پاکستان میں موجود افغان مہاجرین میں مبینہ طور پر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے خلاف ہیں۔
" ہمارے تیس لاکھ افغان مہاجرین ہیں ان میں سے پندرہ لاکھ اندراج شدہ اور پندرہ لاکھ غیر اندراج شدہ ہیں اور ان کے کیمپوں میں ہر قسم کے عناصر ہیں جو پاکستان اور افغانستان مخالف ہیں اور ان کی نشاندہی مشکل ہے۔ ہم اس سلسلے میں مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں چونکہ افغانستان کا امن پاکستان کے امن کے لیے ضروری ہے۔"
پاکستانی مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک ماہ میں پاکستان کا پارلیمانی وفد اور عسکری حکام کابل کا دورہ کر چکے ہیں جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہوگئے تھے تاہم انہوں نے کہا کہ بعض عناصر اسے اپنے مفاد میں نہیں سمجھتے ہیں۔
" سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس دھماکے کا کس کو فائدہ ہوتا ہے یہ کس کے مفاد میں ہے تبہی جا کر معلوم ہو گا کہ یہ کیا ہے اور بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی ثبوت کے یا شواہد کے حقانی نیٹ ورک اور اس کے لیے پاکستان پر الزام عائد کرنا اس سے کوئی فائدہ نہں ہوگا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پورے خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے اور اس کے لیے مل کر جل کر کام کریں۔"
افغان حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ ’حقانی نیٹ ورک‘ کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں موجود ہیں جہاں سے یہ گروپ افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
تاہم سرتاج عزیز نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو شمالی وزیرستان میں تباہ کر دیا گیا ہے۔