لاہور ہائی کورٹ نے دس، دس لاکھ روپے کے ضمانی مچلکوں کے عوض مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج چوہدری مشتاق احمد نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے منشیات کیس میں رانا ثناء اللہ کی ضمانت منظور کی۔
ضمانت کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کی اہلیہ نے وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثںاء اللہ کو چھ ماہ تک حراست میں رکھنے کے ذمہ دار عمران خان ہیں۔
رانا ثناء اللہ کے وکیل زاہد حسین بخاری نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ یہ کیس جھوٹ کا پلندہ اور سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے ایک بے گناہ کو رہائی دلائی ہے۔
زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ اے این ایف عدالت میں رانا ثناء اللہ کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا۔
رانا ثناء اللہ پر الزامات تھے کیا؟
رانا ثناء اللہ کو رواں سال یکم جولائی کو انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے فیصل آباد لاہور موٹروے پر سکھیکی کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔
اے این ایف کے ڈپٹی ڈائریکٹر عزیز اللہ کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق رانا ثناء اللہ اور ان کے ساتھیوں کو لاہور کے نزدیک موٹروے پر روکا گیا۔ تلاشی پر گاڑی سے نیلے رنگ کا سوٹ کیس برآمد ہوا۔
ایف آئی آر کے مطابق, سوٹ کیس سے 15 کلو ہیروئین برآمد ہوئی جس کا رانا ثناء اللہ نے بھی اعتراف کیا۔ دوران حراست رانا ثناء اللہ کے محافظوں اور اے این ایف اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی, جس پر رانا ثناء اللہ کو حراست میں لے کر اے این ایف تھانے منتقل کر دیا گیا۔
رانا ثناء اللہ کی گرفتاری پر اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ اے این ایف کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ رانا ثناء اللہ منشیات کا بڑا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کی ضمانت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک اور بے گناہ کو انصاف مل گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بے گناہ شخص پر منشیات اسمگلنگ کا الزام لگا کر اس کا میڈیا ٹرائل کیا گیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ دعا کرتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز، یوسف عباس، احسن اقبال، فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو بھی انصاف ملے گا۔
حکومت کا ردعمل
وزیر اعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ابھی ٹرائل مکمل نہیں ہوا اس سے قبل ہی رانا ثںاء اللہ کو ضمانت دے دی گئی۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا رانا ثناء اللہ کو قانون کے تحت ضمانت دی گئی۔
فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اے این ایف نے گواہان کو عدالت میں پیش کرنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے بول بھی رہے ہیں اور ہم سن بھی رہے ہیں۔ لہذٰا متعلقہ وزیر اس پر مزید بات کریں گے۔
رانا ثناء اللہ کے خلاف عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟
رانا ثناء اللہ کے خلاف مقدمہ لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں چل رہا ہے، جس کی اگلی سماعت جنوری میں ہو گی۔ انسداد منشیات عدالت نے دو دفعہ رانا ثںاء اللہ کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی، جس کے بعد رانا ثناء اللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
رانا ثناء اللہ کی جانب سے ضمانت کے لیے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ حکومت نے اُن پر منشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا ہے۔ واقعے کی ایف آئی آر تاخیر سے درج کی گئی، جس سے شکوک و شہبات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے مبینہ طور پر برآمد ہونے والی منشیات کا وزن 21 کلو گرام کہا گیا جسے بعدازاں 15 کلو گرام کر دیا گیا۔
رانا ثناء اللہ کی ضمانت پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ چھ ماہ تک قید رکھنے کے باوجود راںا ثناء اللہ کے خلاف کوئی بھی ثبوت سامنے نہیں لایا جا سکا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں تحریک انصاف کی حکومت کو بہت سے سوالوں کا جواب دینا ہو گا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ججز، پولیس، تفتیشی اداروں میں باضمیر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے انصاف پسند لوگوں کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔ "کچھ لوگ تعصبات رکھ کر کام کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ انصاف بھی کرتے ہیں۔ ایسے ہی انصاف پسندوں کی وجہ سے معاشرہ چل رہا ہے۔"
رانا ثناء اللہ کا شمار مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ 2008 سے 2018 کے دوران پنجاب کے وزیر قانون بھی رہے ہیں۔
رانا ثناء اللہ 2018 کے عام انتخابات میں فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔
رانا ثناء اللہ سے قبل مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔