پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ فوج کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کو 30 سے زائد اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کے قیادت سنبھالنے کے لیے اجازت دینے کا فیصلہ ریاست کا ہے۔
انہوں نے یہ بات گزشتہ روز لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی، آصف غفور نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔
گزشتہ سال سعودی عرب نے انسداد دہشت گردی کے لیے تیس سے زائد اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، اس میں سعودی عرب کے حریف ملک ایران سمیت مشرق وسطیٰ کے شیعہ اکثریت والے ممالک شامل نہیں ہیں۔
دوسری طرف جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکر یا نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد مسلمان ملکوں کے درمیان یکجہتی و تعاون کو فروغ دے کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ اگرچہ اس اتحاد کے قواعد وضوابط ابھی وضع ہونے باقی ہیں لیکن ان کے بقول پاکستان کی یہ کوشش رہے گی یہ فوجی اتحاد مسلمان ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بنے۔
تاہم پاکستان کے حزب مخالف کی بعض سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی جانب سے راحیل شریف کو اس فوجی اتحاد کی قیادت کرنے کی اجازت دینے کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔
دوسری طرف اسلام آباد میں تعینات ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے بھی پاکستان کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
فوج کے ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی امور کے تجزیہ کار امجد شعیب کے خیال میں پاکستان اس اتحاد میں شامل رہ کر سعودی عرب اور ایران کو قریب لانے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
"ہم ایک ایسا مثبت کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جہاں ایران اور سعودی عرب قریب آئیں اور باہر بیٹھ کر ہم یہ کردار ادا نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔۔اس میں شامل ہوں گے تو پھر کوئی آپ کی بات سنے گا اور یہی طریقہ ہے جس سے اتحاد کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔"
واضح رہے کہ پاکستان کی طرف سے ایران کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور امجد شعیب کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ کوشش جاری رکھنی چاہیئے اور ان کے بقول اس مقصد کے لیے ایران کو اعتماد میں لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطح وفد کو تہران بھیجنا چاہیئے۔