'اوسٹیریو نیٹ ورک' کے چیف ایگزیکٹیو اور ریڈیو سڈنی کے مالک، ریس ہولرن نے ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے اپنے ریڈیو اسٹیشن کی جانب سے شہزادی کیتھرین (کیٹ) کی خیریت جاننے کے لیے کنگ ایڈورڈ اسپتال میں کی جانے والی جعلی کال کا دفاع کیا۔
اُن کے الفاظ میں، ’مجھے اِس بات پرپورا اطمینان ہےکہ ریڈیو شوکےمیزبانوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ اِس عمل کے پیچھے، اُن کا کوئی برا ارادہ نہیں تھا ۔ مجھے کال ریسیو کرنے والی نرس کی موت پر گہرا رنج ہے‘ ۔
’ریڈیو ٹو ڈے‘ کے میزبان گریگ اور کرسٹین کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ دونوں اِس وقت شدید ذہنی دباؤ میں ہیں اور لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ دونوں بھی انسان ہیں، مشین نہیں۔ اُنھیں بھی اِس حادثہ پر اتنا ہی دکھ ہوا ہے، بلکہ ریڈیو کی ساری انتظامیہ اِس پر غمگین ہے اور براہِ راست متاثر ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ شہزادی کیٹ اِن دنوں حا ملہ ہیں اور گذشتہ کچھ روز سے لندن کےاسپتال کنگ ایڈورڈ میں زیر علاج رہنے کے بعد جمعرات کے روز سینٹ جیمس پیلس لندن منتقل ہو چکی ہیں۔شہزادی کیٹ کے اسپتال میں قیام کے دوران سڈنی ریڈیو کے دو میزبان میل جریگ اور مائیکل کرسٹین نے اسپتال میں فون کال کی جس میں اُنھوں نے خود کو شہزادہ چارلس اور ملکہ برطانیہ ظاہر کرتے ہوئے اسٹاف نرس جاکینتا سیلڈانہ سے شہزادی کی خیریت دریافت کی ، جس پر مسسز سیلڈانہ نے اس کال کو شہزادی کیٹ کے کمرے میں منتقل کر دیا، جہاں سے وہ تمام صورتحال جاننے میں کامیاب ہو گئے۔ جسے بعدمیں شو کی پبلسٹی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جبکہ، اِس واقعہ کے بعد کال ریسیو کرنے والی نرس کی خود کشی کی خبرمنظر ِعام پر آئی۔
مسڑہولرن کا کہنا تھا کہ، ’ریڈیو کی تاریخ میں اِس قسم کا مذاق یا جعلی فون کال کا طریقہ نیا نہیں ہے۔ برسہا برس سے یہ ایک آزمودہ نسخے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اِس میں صرف اُن کا ریڈیو یا نیٹ ورک اور ملک پہلی بار ملوث نہیں ہوا، بلکہ ساری دنیا کا میڈیا اِسے استعمال کرتا رہا ہے‘ ۔
انھوں نے مزید کہا کہ دونوں میزبانوں کی مشاورت کے بعد کمپنی نے شو بند کرنے کا فیصلہ کیا ۔اُنھوں نے اِس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ’ریڈیو ٹو ڈے ایف ایم‘ نے ہفتے کے روز سے تمام اشتہارات بند کر دیے ہیں اور اُنھوں نے یہ اقدام اپنے مشتہرین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کیا ہے ۔
آسٹریلین کمیونیکیشن اور میڈیا اتھارٹی کے ادارے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اُنھیں ریڈیو کے خلاف بےتحاشہ شکایات موصول ہوئی ہیں ، تاہم ادارے کی جانب سےباضابطہ انکوائری کا آغاز ابھی نہیں کیا گیا ہے ۔
آسٹریلیا کی وزیر اعظم، جولیاگلارڈ کی ترجمان کے بیان کے مطابق یہ ایک تکلیف دہ واقعہ ہے جس پر آسڑیلیا کی حکومت کو دلی رنج ہے اور وہ مسز سیلڈانہ کی اِس المناک موت پر اُن کے خاندان اور دوستوں کے غم میں برابرکے شریک ہیں۔
سیلڈانہ کی خودکشی کے واقعہ کےبعد ریڈیو سڈنی کوعوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے، جبکہ آسٹریلیا کی کئی بڑی بڑی کمپنیوں نے بھی ریڈیو کو اشتہارات دینا بند کردیئے ہیں۔
اُدھر، لندن میں اِس پریس کانفرنس کے جواب میں کنگ ایڈورڈ اسپتال کے چیرمین لارڈ گلین آرتھر کی جانب سے سڈنی ریڈیو کے مالک ریس ہولرن کو ایک خط لکھا گیا ہے ۔ اِس خط میں اُنھوں نے ہولرن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ، ’اسٹاف نرس سیلڈانہ کی موت کا صدمہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک نا قابلِ تلافی نقصان ہے جسے آپ پورا نہیں کر سکتے۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ ریڈیو کی پالیسی پر نظرثِانی کریں تا کہ مستقبل میں ایسا کوئی حادثہ رونما نہ ہو‘۔
تاہم، وہ ریڈیو سڈنی کے میزبانوں کی جانب سے کی گئی جعلی فون کال کے ذریعےاپنی اسٹاف نرس کو بے وقوف بنانے کو سراسر بے عزتی خیال کرتے ہیں۔اِس فون کال کی کلپ کوریڈیو پر بار بار چلاکر لوگوں سے داد بھی وصول کی جاتی رہی۔
اُن کے الفاظ میں، ’مجھے اِس بات پرپورا اطمینان ہےکہ ریڈیو شوکےمیزبانوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ اِس عمل کے پیچھے، اُن کا کوئی برا ارادہ نہیں تھا ۔ مجھے کال ریسیو کرنے والی نرس کی موت پر گہرا رنج ہے‘ ۔
’ریڈیو ٹو ڈے‘ کے میزبان گریگ اور کرسٹین کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ دونوں اِس وقت شدید ذہنی دباؤ میں ہیں اور لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ دونوں بھی انسان ہیں، مشین نہیں۔ اُنھیں بھی اِس حادثہ پر اتنا ہی دکھ ہوا ہے، بلکہ ریڈیو کی ساری انتظامیہ اِس پر غمگین ہے اور براہِ راست متاثر ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ شہزادی کیٹ اِن دنوں حا ملہ ہیں اور گذشتہ کچھ روز سے لندن کےاسپتال کنگ ایڈورڈ میں زیر علاج رہنے کے بعد جمعرات کے روز سینٹ جیمس پیلس لندن منتقل ہو چکی ہیں۔شہزادی کیٹ کے اسپتال میں قیام کے دوران سڈنی ریڈیو کے دو میزبان میل جریگ اور مائیکل کرسٹین نے اسپتال میں فون کال کی جس میں اُنھوں نے خود کو شہزادہ چارلس اور ملکہ برطانیہ ظاہر کرتے ہوئے اسٹاف نرس جاکینتا سیلڈانہ سے شہزادی کی خیریت دریافت کی ، جس پر مسسز سیلڈانہ نے اس کال کو شہزادی کیٹ کے کمرے میں منتقل کر دیا، جہاں سے وہ تمام صورتحال جاننے میں کامیاب ہو گئے۔ جسے بعدمیں شو کی پبلسٹی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جبکہ، اِس واقعہ کے بعد کال ریسیو کرنے والی نرس کی خود کشی کی خبرمنظر ِعام پر آئی۔
مسڑہولرن کا کہنا تھا کہ، ’ریڈیو کی تاریخ میں اِس قسم کا مذاق یا جعلی فون کال کا طریقہ نیا نہیں ہے۔ برسہا برس سے یہ ایک آزمودہ نسخے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اِس میں صرف اُن کا ریڈیو یا نیٹ ورک اور ملک پہلی بار ملوث نہیں ہوا، بلکہ ساری دنیا کا میڈیا اِسے استعمال کرتا رہا ہے‘ ۔
انھوں نے مزید کہا کہ دونوں میزبانوں کی مشاورت کے بعد کمپنی نے شو بند کرنے کا فیصلہ کیا ۔اُنھوں نے اِس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ’ریڈیو ٹو ڈے ایف ایم‘ نے ہفتے کے روز سے تمام اشتہارات بند کر دیے ہیں اور اُنھوں نے یہ اقدام اپنے مشتہرین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کیا ہے ۔
آسٹریلین کمیونیکیشن اور میڈیا اتھارٹی کے ادارے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اُنھیں ریڈیو کے خلاف بےتحاشہ شکایات موصول ہوئی ہیں ، تاہم ادارے کی جانب سےباضابطہ انکوائری کا آغاز ابھی نہیں کیا گیا ہے ۔
آسٹریلیا کی وزیر اعظم، جولیاگلارڈ کی ترجمان کے بیان کے مطابق یہ ایک تکلیف دہ واقعہ ہے جس پر آسڑیلیا کی حکومت کو دلی رنج ہے اور وہ مسز سیلڈانہ کی اِس المناک موت پر اُن کے خاندان اور دوستوں کے غم میں برابرکے شریک ہیں۔
سیلڈانہ کی خودکشی کے واقعہ کےبعد ریڈیو سڈنی کوعوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے، جبکہ آسٹریلیا کی کئی بڑی بڑی کمپنیوں نے بھی ریڈیو کو اشتہارات دینا بند کردیئے ہیں۔
اُدھر، لندن میں اِس پریس کانفرنس کے جواب میں کنگ ایڈورڈ اسپتال کے چیرمین لارڈ گلین آرتھر کی جانب سے سڈنی ریڈیو کے مالک ریس ہولرن کو ایک خط لکھا گیا ہے ۔ اِس خط میں اُنھوں نے ہولرن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ، ’اسٹاف نرس سیلڈانہ کی موت کا صدمہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک نا قابلِ تلافی نقصان ہے جسے آپ پورا نہیں کر سکتے۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ ریڈیو کی پالیسی پر نظرثِانی کریں تا کہ مستقبل میں ایسا کوئی حادثہ رونما نہ ہو‘۔
تاہم، وہ ریڈیو سڈنی کے میزبانوں کی جانب سے کی گئی جعلی فون کال کے ذریعےاپنی اسٹاف نرس کو بے وقوف بنانے کو سراسر بے عزتی خیال کرتے ہیں۔اِس فون کال کی کلپ کوریڈیو پر بار بار چلاکر لوگوں سے داد بھی وصول کی جاتی رہی۔